وجہ بے رنگی ِگل زار کہوں تو کیا ہو

وجہ بے رنگی ِگل زار کہوں تو کیا ہو
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
ہمیں بدصورت اور بد وضع دکھائی دینے کی
فیض احمد فیض نے اس نظم کو ان نوجوان طالب علموں سے یکجہتی کے لئے منظوم کیا جو شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہوئے۔
اپنے اس پیغام کو’انسانیت کا پرانا نغمہ‘ قرار دیتے ہوئے وہ کہہ رہی ہیں کہ غربت، ماحولیاتی آلودگی اور طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔