عورت جاگ پڑی ہے۔

عورت جاگ پڑی ہے۔
وہ اپنی بیوی کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کے کئی معاشقے چل رہے ہیں مگر ان کی اہلیہ کو بالکل پتہ نہیں چلتا۔
امریکہ میں پولیس تشدد کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی ردِ عمل اور مظاہروں نے جو رخ اختیار کیا ہے، وہ اب پاپولر کلچر کا حصہ بھی بن گیا ہے اور اس سیریز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس کا ثبوت ہے۔
”جرم معاشرے میں موجود مسائل کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ جرائم کی وجوہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“
ایک اور مثال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بستر میں سونا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
اگر ہمیں اس مسئلے سے نپٹنا ہے تو اس نظام کو لگام ڈالنی پڑے گی جو اس کا سبب ہے۔
رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جنسی تفریق میں کمی دیکھی گئی ہے مگر تعصبات کے حوالے سے صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یو این ڈی پی نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان تعصبات کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں۔
جب عورتیں مرد کی سفلی انا کے دائرے سے نکل کر کسی آزادی کا اظہار کرتی ہیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہر دو حلقوں کا موقف منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے۔ ایک درست اور اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ ریاست ایران اور سعودی عرب کی ہو یا فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی، ریاست کو حق نہیں کہ وہ لوگوں کے لباس کا فیصلہ کرے یا ان کے گھر کے اندر جھانکے۔ برقعہ پہننا چاہئے یا نہیں، اس پر بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب فرد کو بنیادی شخصی آزادی کا تحفظ ریاست کی جانب سے حاصل ہو۔
اس ترانے کی عالمی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو پدر سری نظام کا سامنا ہے اور ان کی جدوجہد عالمی یکجہتی کا تقاضا کرتی ہے۔