دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، دو پروفیشنل گروپ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائیاں معاشرہ کی عمومی پستی اور عدم برداشت کی تمام حدیں پار ہونے کی غمازی ہیں۔ معاشرہ پر تشدد بن چکا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں حکمران طبقات ہیں۔
حکومت نے بھی اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا اور فیصلہ کیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ زیادہ تر کمرشل میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپوزیشن کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے جیسے ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ نواز تک سب نے ملک ریاض کو مراعات سے نوازا ہے اوراس کے بدلے خود بھی مراعات یافتہ ہوئے ہیں۔
پچھلے مسئلے کو بھلانے کے لئے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر دفعہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ان پر پھینک دیا جاتا ہے جنہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں۔
ن چھوٹے کسانوں نے اس تجربے کو اپنایا ہے وہ اب اس کا پھل کاٹ رہے ہیں ان کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زہر آلود دوائیوں سے نجات مل گئی ہے، کھاد کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے۔
اس نظام کو پاش پاش کر کے ہی ایک صحت مند انسانی معاشرے کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
اہور میں 29 نومبرکو طلبہ کے تاریخی جلوس کی بازگشت اب پورے پاکستان میں سنی جا سکتی ہے۔ اس جلوس نے بائیں بازو کو ایک نئی تقویت دی ہے۔ دایاں بازو اس کے جواب میں کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح بائیں بازو کے بڑھتے قدم کو روکیں۔
انسانی سماج نت نئی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ ان تبدیلیوں کی نبض پہ ہو۔ یہ وہ دانشور ہیں جنھیں ان طلبہ کی سوچ کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ اس لیے انھوں نے برسوں پرانا اور آزمودہ نْسخہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ طلبہ روایتی سیاست سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ انھیں اس نظام میں اپنا حصہ چاہیے۔
طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔