مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔
پاکستان
رجعتی گروہی مفادات پر منظم پروفیشنل گروپ کی ہلڑ بازی کے منفی نتائج سب کو بھگتنے پڑتے ہیں
دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
لاہور: ہسپتال پر وکلا کا حملہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی ہے
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، دو پروفیشنل گروپ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائیاں معاشرہ کی عمومی پستی اور عدم برداشت کی تمام حدیں پار ہونے کی غمازی ہیں۔ معاشرہ پر تشدد بن چکا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں حکمران طبقات ہیں۔
ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں
حکومت نے بھی اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا اور فیصلہ کیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ زیادہ تر کمرشل میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپوزیشن کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے جیسے ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ نواز تک سب نے ملک ریاض کو مراعات سے نوازا ہے اوراس کے بدلے خود بھی مراعات یافتہ ہوئے ہیں۔
کیا طلبہ سیاست جامعہ کو بدنام کرنے کے مترادف ہے؟
پچھلے مسئلے کو بھلانے کے لئے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر دفعہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ان پر پھینک دیا جاتا ہے جنہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں۔
زرعی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زہریلی دوائیوں اور کھادوں سے نجات کا راستہ
ن چھوٹے کسانوں نے اس تجربے کو اپنایا ہے وہ اب اس کا پھل کاٹ رہے ہیں ان کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زہر آلود دوائیوں سے نجات مل گئی ہے، کھاد کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے۔
پاکستان: ٹریفک کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہے؟
اس نظام کو پاش پاش کر کے ہی ایک صحت مند انسانی معاشرے کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
بائیں بازو کی عوامی بنیادوں پر تعمیر کیسے ممکن ہے؟
اہور میں 29 نومبرکو طلبہ کے تاریخی جلوس کی بازگشت اب پورے پاکستان میں سنی جا سکتی ہے۔ اس جلوس نے بائیں بازو کو ایک نئی تقویت دی ہے۔ دایاں بازو اس کے جواب میں کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح بائیں بازو کے بڑھتے قدم کو روکیں۔
طلبہ اور متبادل نظام سیاست
انسانی سماج نت نئی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ ان تبدیلیوں کی نبض پہ ہو۔ یہ وہ دانشور ہیں جنھیں ان طلبہ کی سوچ کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ اس لیے انھوں نے برسوں پرانا اور آزمودہ نْسخہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ طلبہ روایتی سیاست سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ انھیں اس نظام میں اپنا حصہ چاہیے۔
پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ و تناظر
طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔