کارکنوں نے اپنے معاشی حقوق و صحافت کی بقا کے ساتھ ساتھ سیٹھ کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے تو یہ تحریک نہیں چلے گی۔
پاکستان
بوٹ کو عزت دو
یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر یہ آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مدد سے منظور ہو گئی تو اس سے ان دونوں جماعتوں کا ماضی میں بار بار دیا جانے والابیانیہ کمزور ہو گا اور دونوں کو عوام اور انکے کارکنوں کی شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔
2020ء جلسے جلوسوں، مظاہروں اور تحریکوں کا سال ہو گا
اگلا دور کافی دلچسپ ہو گا، نجکاری کے خلاف سخت مزاحمت ہو گی اور طلبہ یونینوں کی بحالی ملک میں طلبہ تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو روشن کرے گی۔ سیاسی فضا میں دیر بعد اب سرخ رنگ بھی نظر آنے لگا ہے۔ یہ محنت کش طبقات کی جدوجہد کا دور ہو گا۔
رجعتی دور کے تقاضے
ہم آج ایک مشکل اور رجعتی رد انقلابی دور سے گزر رہے ہیں اس میں تو بات کرنا بھی مشکل ہو رہی ہے مگر ایسے ہی دور میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ رجعتی دور کی حکمت عملی وہ نہیں ہو تی جو انقلابی دور کی ہوتی ہے۔ ہمیں جہاں اس مشکل دور کامقابلہ کرناہے وہیں ہمیں اپنے سوشلسٹ انقلابی نظریات کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ داری اورجاگیرداری کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔
”ہمت تھی تو مجھے پکڑتے“
جج صاحب کو انہوں نے خوب سنائیں، تم آمریت کے پروردہ ہو ابھی تک تمہیں عقل نہیں آئی۔
وقت بدلتے وقت نہیں لگتا
آئی ایس پی آر اسے فوج پر حملے سے گردان رہی ہے۔ ایسے کہا جا رہا ہے جیسے کسی حاضر سروس جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل جو وردی اتار کر سویلین صدر بننے میں پورا زور لگاتا رہا ہواسے اب دوبارہ وردی پہنائی جا رہی ہے۔
جنرل مشرف کو سزائے موت: ابھی آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے
ایک آمر کے خلاف یہ فیصلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اب راہیں کھل گئی ہیں۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا سیاسی اظہار ہونا ابھی باقی ہے۔
سانحہ پشاور: مذہبی جنونیوں سے مذاکرات سب پر بھاری رہیں گے
مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔
رجعتی گروہی مفادات پر منظم پروفیشنل گروپ کی ہلڑ بازی کے منفی نتائج سب کو بھگتنے پڑتے ہیں
دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
لاہور: ہسپتال پر وکلا کا حملہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی ہے
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، دو پروفیشنل گروپ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائیاں معاشرہ کی عمومی پستی اور عدم برداشت کی تمام حدیں پار ہونے کی غمازی ہیں۔ معاشرہ پر تشدد بن چکا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں حکمران طبقات ہیں۔