پاکستان


وقت بدلتے وقت نہیں لگتا

آئی ایس پی آر اسے فوج پر حملے سے گردان رہی ہے۔ ایسے کہا جا رہا ہے جیسے کسی حاضر سروس جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل جو وردی اتار کر سویلین صدر بننے میں پورا زور لگاتا رہا ہواسے اب دوبارہ وردی پہنائی جا رہی ہے۔

جنرل مشرف کو سزائے موت: ابھی آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے

ایک آمر کے خلاف یہ فیصلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اب راہیں کھل گئی ہیں۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا سیاسی اظہار ہونا ابھی باقی ہے۔

سانحہ پشاور: مذہبی جنونیوں سے مذاکرات سب پر بھاری رہیں گے

مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

رجعتی گروہی مفادات پر منظم پروفیشنل گروپ کی ہلڑ بازی کے منفی نتائج سب کو بھگتنے پڑتے ہیں

دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

لاہور: ہسپتال پر وکلا کا حملہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی ہے

یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، دو پروفیشنل گروپ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائیاں معاشرہ کی عمومی پستی اور عدم برداشت کی تمام حدیں پار ہونے کی غمازی ہیں۔ معاشرہ پر تشدد بن چکا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں حکمران طبقات ہیں۔

ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں

حکومت نے بھی اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا اور فیصلہ کیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ زیادہ تر کمرشل میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپوزیشن کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے جیسے ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ نواز تک سب نے ملک ریاض کو مراعات سے نوازا ہے اوراس کے بدلے خود بھی مراعات یافتہ ہوئے ہیں۔

بائیں بازو کی عوامی بنیادوں پر تعمیر کیسے ممکن ہے؟

اہور میں 29 نومبرکو طلبہ کے تاریخی جلوس کی بازگشت اب پورے پاکستان میں سنی جا سکتی ہے۔ اس جلوس نے بائیں بازو کو ایک نئی تقویت دی ہے۔ دایاں بازو اس کے جواب میں کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح بائیں بازو کے بڑھتے قدم کو روکیں۔