معلوم نہیں اُن دنوں، جب یہ مہم چل رہی تھی، پیپلز پارٹی کا بچر آف گجرات بارے کیا موقف تھا۔ کوئی موقف تھا بھی یا نہیں۔ ہاں البتہ جب چند روز قبل حنا ربانی کھر طالبان کے ساتھ فوٹو سیشنز کر رہی تھیں، جس کا مقصد طالبان کی گلوبل امیج بلڈنگ تھا، تو اس فوٹو سیشن سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ پیپلز پارٹی کو اپنی نوکری سے غرض ہے…اس نوکری کو بچانے کے لئے وہ بچرز آف افغانستان کو بھی ہنس ہنس کر گلے مل سکتے ہیں۔
دنیا
منافقت میں پیپلز پارٹی اور طالبان بھائی بھائی ہیں
مطالعہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے علاوہ، اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی مقدس پالیسی کے مطابق جماعت اسلامی کے رکن مولانا چترالی بالکل درست اعتراض کر رہے ہیں کہ بھائی حنا ربانی کھر کو کابل بھیج کر ہم نے طالبان کے مردانہ جذبات کو مجروح کیا ہے۔
شکریہ مراکش الیون مگر: قطر میں فلسطین کا جھنڈا لہرانا بہادری ہے نہ مزاحمت
کیا ہی اچھا ہوتا اگر فلسطین کے ساتھ مراکش الیون فلسطین کے علاوہ مراکشی ریاست کے جبر کا شکار بربر قوم کا جھنڈا بھی لہراتے۔ ترک سلطان رجب طیب اردگان کی بربریت کا شکار کردستان کا جھنڈا بھی لہراتے۔ مراکش میں جمہوریت کے لئے قید ضمیر کے قیدیوں سے بھی اظہار یکجہتی کرتے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ وہ ہم جنس پرستوں کا پرچم بھی لہراتے لیکن کم از کم ہم جنس پرستوں کے اس جمہوری حق کو تو تسلیم کرتے کہ وہ قطر میں اپنا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔
’COP27‘: موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے عالمی اہداف مصنوعی، جعلی اور بھونڈے
ماحولیاتی تباہی کے تدارک کے نام پر عالمی ماحولیاتی کانفرنس ’COP27‘ رواں ماہ 06 نومبر کو شروع ہو چکی ہے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ یہ کانفرنس 18 نومبر تک جاری رہے گی۔ ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے حکمران بیٹھ کر ماحولیاتی آلودگیوں پر ایک بے معنی بحث و تکرار کے بعد کچھ اہداف مقرر کریں گے اور پھر آئندہ کانفرنس کے انعقاد تک چند ایک مستثنیات کے علاوہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ جو اقدامات ماضی میں کیے جانے تھے یا جو آئندہ اہداف لئے جاتے ہیں، وہ محض نمائش سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ اس کانفرنس میں زیادہ تر بحث و تکرار ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ داران کے تعین کے گرد ہی رہتی ہے۔
دنیا بھر کا بایاں بازو ایران میں بغاوت سے یکجہتی کرے: فورتھ انٹرنیشنل
اس تحریک کو سیاسی و اخلاقی مدد دینے کے لئے ٹریڈ یونینز، طلبہ تنظیمیں، خواتین تنظیمیں، عالمی یکجہتی کی علامت کے طور پر، پیغامات ارسال کریں۔ ہم ٹریڈ یونینز سے کہیں گے کہ وہ ایران میں ٹریڈ یونینز سے رابطہ کریں اور اس بابت بحث کریں کہ عملی یکجہتی کے طور پر کیا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیاں ایران میں یونیورسٹیوں سے رابطے کر کے وہاں کے طلبہ کی حفاظت کا مطالبہ کریں۔ اسی طرح طلبہ اور خواتین کی تنظیمیں ایران کے طلبہ اور خوتین سے رابطے پیدا کریں۔
ایران میں عورت انقلاب: پاکستانی سوشلسٹ، فیمن اسٹ کھل کر حمایت کریں
خطے میں ہونے والی اس اہم ترین پیش رفت بارے پاکستان کا بایاں بازو اور فیمن اسٹ تحریک عمومی طور پر خاموش نظر آ رہی ہے۔ ہونا اس کے الٹ چاہئے۔ ایک کی جیت سب کی جیت اگر سوشلسٹ اصول ہے تو اس اصول کے تحت بائیں بازو اور فیمن اسٹ تحریک کو کھل کر ایران میں جاری انقلاب کی حمایت کرنی چاہئے۔
ایران: انقلابی تحریک سے لرزتی ملاں ریاست
ملائیت کے انقلابی دھڑن تختے کی صورت میں ملک میں امکانی طور پر ایک نسبتاً جمہوری حکومت بنے گی جو اپنے تیئں ایک لازمی اور مثبت پیش رفت ہوگی۔ اس سے سیاسی پارٹیاں فروغ پائیں گی۔ بائیں بازو کی قوتوں کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ جو مستقبل کے سوشلسٹ ایران کا راستہ ہموار کرے گا۔ ایران کے اندر ہونے والی یہ تبدیلیاں لامحالہ پاکستان میں موجود انقلابی قوتوں کا حوصلہ بڑھائیں گی۔ ملک میں موجود سیاسی گھٹن کا خاتمہ ہوگا اور انقلابی تبدیلی کی مہک سیاسی فضا کو معطر کرے گی۔ افغانستان پر مسلط سیاہ رجعت کے حوصلے پست ہوں گے۔ اس لیے ایران کی موجودہ تحریک ہر انقلابی کی حمایت اور یکجہتی کا تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان میں تحریک کے ابھار کی صورت میں جنم لینے والی کوئی سیاسی تشکیل انقلابی قوتوں کی موجودگی کی وجہ سے یقینا ایران کی نسبت ایک قدم آگے ہو گا جو اپنی باری میں ایران کو اپنے پیچھے کھینچ سکتی ہے۔
ایران: ملا آمریت کو للکارتا ’عورت انقلاب‘
ایران میں بائیں بازو کی قوتوں کی بڑے پیمانے پر عدم موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کی تنظیموں، انقلابی تنظیمیں اور قیادتوں کو ایرانی محنت کشوں کی اس تحریک کے ساتھ نہ صرف بھرپور طریقے سے یکجہتی کرنا ہو گی بلکہ جلا وطن ایرانی بائیں بازو کے رہنماؤں کو واضح انقلابی متبادل کو ایرانی محنت کشوں تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملائیت کے جبر کے خاتمے اور محض سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے سے ایرانی محنت کشوں کا مقدر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ گو ملا اشرافیہ کی آمریت کا خاتمے ایرانی سماج میں انتہائی آگے کا قدم ہوگا اور محنت کش طبقے کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جرات فراہم کرے گا۔ تاہم ایرانی محنت کش طبقے کی نجات کی حتمی منزل کبھی بھی جمہوریت کی بحالی کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ ایران میں محنت کش طبقے کی فتح اس خطے میں نئے انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کھپے، سندھ نہ کھپے!
باون برس بعد آج بھی پاکستان کی صورت حا ل کچھ مختلف نہیں۔ اس بار سندھ اور بلوچستان کے عوام شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہیں۔
ایران کی گلیوں میں ’حقوق نسواں انقلاب‘ شروع ہے: نازنین بونیادی
میں ابھی کیلیفورنیا میں ہوں۔ یہ مشکل ہے اور خوفناک بھی، یہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بار بین الاقوامی رد عمل ایرانی عوام کی ان آزادیوں کو حاصل کرنے میں مدد کرے گا، جس کے وہ حقدار ہیں۔ میرے والدین ایرانی پناہ گزین تھے، جنہوں نے نو تشکیل شدہ اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کی اور اسی لئے انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا، ہمیں لندن میں پناہ مل گئی۔ میں 13 سال کی تھی، جب ہم نے ایران کا دورہ کیا، میری ایرانی لوگوں اور ثقافت کے بارے میں بہت پیاری یادیں ہیں، لیکن اس عمر میں حجاب پہننے پر مجبور ہونا میرے لئے پریشان کن تھا۔ میں نہیں سمجھ پائی، میں ایسے ماحول میں نہیں رہی، جہاں اس طرح کے ڈریس کوڈ کو نافذ کیا گیا ہو۔