دریں اثنا، کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دریں اثنا، کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہم نے چند دن پہلے ایک ادارتی نوٹ میں کہا تھا کہ احمد نورانی کی رپورٹ پر حکومت کے لئے خاموش رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ جنرل عاصم کو خود یہ خاموشی توڑنی پڑی۔ موقع پرست حزب اختلاف کو بھی لب کشائی کرنی پڑی۔ تردید کے بہانے ہی سہی، میڈیا کو بھی رپورٹ کرنا پڑا۔ تضاد اتنا کھلا ہے کہ روایتی جوڑ توڑ، زور زبردستی، سنسر اور ہیرا پھیری سے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔
اس نئے ایڈیشن میں آپ کی ایک بدنام نظم کا متن بدل کر ”پیشہ ور محافظو…وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں“ کر دیا جائے گا۔
سنسنی خیزی اور سازشی نظریات کی مدد سے تقریباً بیس سال تک ”آزاد میڈیا“ نے لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کئے رکھا مگر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ اور حکمران طبقے کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے دھیرے دھیرے ”آزاد میڈیا“ کا بھرم کھلنے لگا۔ یہ آپسی لڑائیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ سنسر شپ بھی بڑھنے لگی۔ صحافتی حلقوں میں واٹس اپ جرنلزم کی اصطلاح رواج پانے لگی۔
بھائی آخر کچھ تو سوچ کر یہ کمپنیاں بنائی گئیں لیکن شائد بعد میں سوچا کہ کاروبار کیا تو بڑا نقصان ہو گا۔
یہ لمبی جدوجہد اس لئے بھی ممکن ہو سکی کہ ان میں زبردست انفرادی خوبیاں تھیں۔ بے شمار حوصلہ، بہادری، ایثار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے۔ ان کی وفات پر ان کے قریبی دوست ڈاکٹر رسولی نے معلم صبوری کو ”انسان مبارز و با افتخار کشور“ (فائٹر اور ملک کا افتخار) قرار دیا۔ شائد اس سے بہتر اور مختصر تعارف ممکن نہیں۔
پچھلی دفعہ اتنا بڑا خسارہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سامنے آیا تھا جس کی وجہ جنگی حالات بتائے جاتے ہیں۔
اس ویبینار میں آئی اے رحمن، افراسیاب خٹک، حنا جیلانی اور حبیب طاہر نے اظہار خیال کیا۔
کیوبا دوسری ریاستوں پر بہت حوالوں سے فوقیت رکھتا ہے جن میں، مفت عالمی نظام صحت، دنیا میں سب سے اعلیٰ ڈاکٹرز اور ان کا آبادی سے تناسب اور دوسرے مثبت صحت سے متعلق اشارات جیسا کہ لمبی عمر کی توقع اور بچوں کی شرح اموات میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔
کرونا بحران کے دوران حکومت نے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں، بشمول صدر، کی تنخواہیں کم کر دیں۔