اگر ہمارے قبرستان اس حالت میں ہیں تو یہ نہ صرف ریاست کی ناقابل بیان ناکامی ہے جو نہ ہمارے جینے کی ذمہ داری لیتی ہے نہ مرنے کی۔

اگر ہمارے قبرستان اس حالت میں ہیں تو یہ نہ صرف ریاست کی ناقابل بیان ناکامی ہے جو نہ ہمارے جینے کی ذمہ داری لیتی ہے نہ مرنے کی۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق شمس الرحمن کی یہ تصنیف ایک پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ ہے جس میں سماجی نا انصافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عورت کے انفرادی رویے کو غلط ثابت کیا گیا ہے جو بذات خود ان سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے۔