جن کے لہجے میں خدائی کا غرور

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
جن کے لہجے میں خدائی کا غرور
افغانستان میں تذویراتی گہرائی تلاش کرنے کی بجائے، تذویراتی دوستی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
”جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے پس پردہ عورتوں کے خلاف سماجی، قانونی اور معاشرتی ناانصافیوں کے رویے کارفرما ہوتے ہیں جن کے تحت انہیں دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔“
اس ساری صورتحال میں بائیں بازو کو تماشا دیکھنے کی بجائے اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے انڈیپنڈنٹ ایکشن لینے کی فوری ضرورت ہے۔ اسی کے پیش نظر حقوق خلق موومنٹ نے 8 نومبر کو لاہور میں ایک بڑی ریلی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور طلبہ نے 27 نومبر کو لال لال لہرانے کا عمل دہرانے کے لئے ایک بڑی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہم پاکستان کے محنت کش عوام اور ترقی پسند دوستوں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش کا حصہ بنیں گے، ریاست جموں کشمیر کے محنت کش عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے موجود ہوں گے اور حکومتوں کی طرف سے اس مارچ کو روکنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
واضح رہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے کل پارلیمنٹ ہاؤس جانے کا اعلان کیا تھا۔