فاروق سلہریا
اگر آپ ترقی پسند ہیں اور لندن جانے کا اتفاق ہو تو ہائی گیٹ سمٹری ان مقامات میں شامل ہوتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ 1839ء میں قائم ہونے والا یہ قبرستان آرٹ کا ایک نمونہ ہے۔ قبرستان میں داخل ہو نے لے لئے دس پونڈ کی ٹکٹ لینا پڑتی ہے۔ ترقی پسندوں کی دلچسپی اور اس قبرستان کی وجہ شہرت بلا شبہ یہ ہے کہ یہاں کارل مارکس کی آخری آرام گاہ ہے۔ کارل مارکس کے علاوہ بھی بے شمار معروف اور اہم شخصیات یہاں دفن ہیں۔
تین چار سال قبل پیرس میں بھی پیر لاشیز (Cimetiere du Pere Lachaise) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ قبرستان کیا تھا، ایک پر اسرار سا شہر تھا۔ ہر قبر آرٹ کا ایک نمونہ۔
خیر یہ تو تھے ایسے قبرستان جو بہت خاص ہیں۔ کسی عام سے یورپی قبرستان کے پاس سے بھی گزریں تو معلوم ہو گا کسی پارک کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ سر سبز، منظم، پھولوں سے لدا ہوا، صاف ستھرا۔ گویا قبرستان نہ ہوا کوئی سیرگاہ ہوئی۔
اپنے ہاں قبرستان کی حالت ایسی وحشت ناک ہو گی کہ اچھے خاصے اتھیسٹ بھی خدا پر ایمان لے آئیں۔ نہ کوئی ترتیب، نہ دیکھ بھال۔ جس طرح زندہ لوگوں کی کوئی قدر نہیں، اُسی طرح بے قدری کے ساتھ مرنے کے بعد دفنا دیا جاتا ہے۔
ہاں طاقتور لوگوں کی قبروں کے گرد چار دیواری کھنچی ہو گی۔ سنگ مر مر بھی جڑ دیا جائے گا لیکن ایسی قبریں ہمارے ہاں قبرستان کی مجموعی بے ترتیبی اور جمالیاتی لحاظ سے وحشت ناک حلئے پر خاص اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یوں لگتا ہے کہ کچی بستی میں ڈی ایچ اے کا سیکٹر بنا دیا گیا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہاں قبرستان تکریم کی بجائے عبرت، عسرت، دہشت، وحشت اور بے ترتیبی کا نمونہ ہیں؟ کسی بھی قسم کی حس جمالیات مفقود کیوں ہے؟
کچھ تو تاریخی وجوہات ہیں۔ یورپ میں غالباً رومن سلطنت کے زیر سایہ پھیلنے کی وجہ سے مذہبی کلچر میں رومن بیوروکریٹک انتظام و انتصرام نظر آتا ہے۔ ایک اہم عنصر یہ ہے کہ مغرب میں قبرستان چرچ کے زیر انتظام چلتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اکثر ممالک میں چرچ اور مقامی حکومت نے مل کر منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ کسی انسان کی وفات پر اس کی تدفین کیسے اور کہاں ہو گی۔
سب سے اہم یہ بات ہے کہ تدفین اور جنازے کی رسومات ثقافتی ترقی اور تنزلی کی آئینہ دار ہو تی ہیں۔ ایک رخصت ہونے والے شخص کو آپ کیسے رخصت کرتے ہیں، اس سے جانے والے کو تو فرق نہیں پڑتا مگر پیچھے رہ جانے والوں کو پڑتا ہے۔ ثقافت صرف خوشی کے تہوار منانے کا نام نہیں۔ ثقافت اس بات کا بھی اظہار ہوتی ہے کہ ہم اپنے غم کیسے مناتے ہیں۔
اگر ہمارے قبرستان اس حالت میں ہیں تو یہ نہ صرف ریاست کی ناقابل بیان ناکامی ہے جو نہ ہمارے جینے کی ذمہ داری لیتی ہے نہ مرنے کی۔ دوم، قبرستانوں کی یہ حالت ہمارے ثقافتی پس ماندگی اور سماجی بوسیدگی کی علامت ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔