فاروق حیدر نے تحریک انصاف پر الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ منتخب ہو کر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائیگی۔

فاروق حیدر نے تحریک انصاف پر الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ منتخب ہو کر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائیگی۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جاری کئے گئے بیانات میں کہا گیا ہے کہ آج 31مئی سے 4جون تک ملک کے 29شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے کئے جائیں گے۔
پاکستان میں صحافت کبھی بھی آزاد نہیں رہی، 1947ء سے اب تک پاکستان میں پریس پر قدغنیں رہی ہیں۔ 1947ء سے 1957ء تک تو وہی قوانین رائج تھے جو برطانوی نوآبادیاتی دور کے قوانین تھے۔ بعد ازاں صحافیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ قوانین بنائے گئے لیکن آزادانہ صحافت کو کبھی بھی پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ لیاقت علی خان کے زمانے میں بھی پریس پر پابندیاں رہیں، مشرقی پاکستان میں اکثریتی حکومتوں کو گرانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ مارشل لاء ادوار میں اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں، ترقی پسند اخبارات پر قبضہ کیا گیا، نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر تمام بڑے اخبارات کو حکومت کے قبضے میں لے لیا گیا۔
خیر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ففتھ جنریشن وارفیئر چل رہا ہے اور ’اداروں ‘ کو بدنام کرنے کے لئے کچھ صحافی اسرائیل، ہندوستان، افغانستان اور پتہ نہیں کس کس ادارے سے پیسے لے رہے ہیں، تواس بات کا کیا جواب ہے کہ رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) ہر سال آزادی صحافت کی جو عالمی رینکنگ جاری کرتا ہے اس میں پاکستان کا نمبر 140 کے قریب قریب ہوتا ہے۔ جنگ کے مارے افغانستان کی رینکنگ بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ کیا آر ایس ایف بھی اسائلم لینے کے لئے ایسا کر رہا ہے؟
29 مئی کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبرکے مطابق اسلامیہ کالج پشاور کی 110 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نہ صرف سٹاف کو پوری تنخو اہ نہیں مل رہی بلکہ سابق ملازمین کی نصف پنشن بھی ادا نہیں کی جائے گی۔
یہ ویڈیو صرف پرانی ہے، غلط نہیں:
اگر میری تجویز ملک ریاض صاحب کو پسند آ گئی تو عین ممکن ہے کہ وہ بعض دیگر صحافیوں کے ضمیر، قلم اور خدمات کی طرح میرے ضمیر،قلم اور خدمات کو بھی بحریہ ایونیو کے آس پاس میں ڈیڑھ دو کنال کا پلاٹ دے کر خرید فرمائیں۔
تقسیم سکوائر 2013ء میں حکومت مخالف مظاہروں کا مقام بھی تھا۔ ان مظاہروں کا آغاز ملحقہ ’گیزی پارک‘ میں حکومت کے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف ہوا تھا۔
امریکی این جی او ’پبلک سٹیزن‘ کی ایک نئی رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایک سال کے اندر اندر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 80 فیصد شہریوں کو انسداد کورونا ویکسین فراہم کی جا سکتی ہے۔
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں، حیاتیاتی تنوع کے نقصانات اور زمین کی تباہ کاریوں کو روکنے کیلئے 2050ء تک 8.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔