Month: 2022 اپریل


جموں کشمیر: اسمبلی اجلاس کی کارروائی پر عدالتی جنگ شروع

روز مرہ ضروریات کے حصول کی تگ و دو میں غرق اس خطے کے محنت کش اور نوجوان حکمرانوں کی اس سیاست سے نہ صرف لاتعلق اور بدظن ہو رہے ہیں بلکہ وہ وقت بھی دور نہیں جب وہ اس سیاست اور اقتدار پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہونگے۔

منٹو، چچا سام اور قوم یوتھ کی ’سامراج دشمنی‘

فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان ملاؤں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں، مگر آپ کی سب رمزیں سمجھتا ہوں، لیکن عقل کی یہ ارزانی آپ ہی کی سیاسیات کی عطا کردہ ہے (خدا اسے نظر بد سے بچائے)۔ ملاؤں کا یہ فرقہ امریکی اسٹائل میں مسلح ہو گیا تو سویٹ روس کو یہاں سے اپنا پاندان اٹھانا ہی پڑے گا جس کی کلیوں تک میں کمیونزم اور سوشلزم گھلے ہوتے ہیں۔ امریکی اوزاروں سے کتری ہوئی لبیں ہوں گی۔ امریکی مشینوں سے سلے ہوئے شرعی پیجامے ہوں گے۔ امریکی مٹی کے ”ان ٹچڈ بائی ہینڈ“ قسم کے ڈھیلے ہوں گے، امریکی رحلیں اور امریکی جائے نمازیں ہوں گی…بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپ ہی کے نام کے تسبیح خواں ہوں گے۔

ثریا عظیم: کمیونسٹ خاتون کا بنایا ہسپتال جسے جماعت اسلامی چلاتی ہے

وہ انسانوں کی بھلائی چاہتی ہیں، یہ ہسپتال بنایا ہے تو خواہش ہے کہ یہ چلتا رہے اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہو، حکومت کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی، جماعت والوں کا اس لیے خیال آیا کہ ان کا ایسے شفاخانے چلانے کا تجربہ ہے، پھر ایک منظم جماعت نگران ہو گی۔

پانی کی قلت

یہ بحران ایک غیر متوقع خشک موسم سے پیدا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سردیوں کے مہینوں میں 26 فیصد کم برف باری ہوئی ہے اور مارچ کے بعد سے کوئی بارش نہیں ہوئی ہے۔ مزید برآں اس سال موسم گرما کے ابتدائی آغاز کے باوجود برف متوقع رفتار سے نہیں پگھلی، کیونکہ زیادہ تر برف باری اونچائی پر ہوئی ہے۔ یہ پریشان کن صورت حال حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی ادارے کچھ عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ 2025 ء تک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں، آبی وسائل کے ناقص انتظام اور پرانے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کے نتیجے میں بارش کے انداز میں تبدیلی کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے گاڈ فادر؟

خان کو یقین ہے کہ انہیں دوسرا موقع ضرور ملے گا، چاہے ان کی اہلیہ کو اپنے سابق شوہر اور بیٹے کے ساتھ جیل میں وقت گزارنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹھیک سوچ رہے ہوں، کیوں کہ وہ متوسط شہری اور محدود بورژوا طبقے میں مقبول ہیں۔ عمران خان کی قسمت کچھ بھی ہو، مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست میں کچھ نہیں بدلے گا۔ اشرافیہ کی شیطانی لالچ اور مستقل بے حسی حلب کے رہنے والے دسویں صدی کے عظیم سیکولر شاعر ابو العلا معری کے ان اشعار کی یاد دلاتی ہے:

جہاں کبھی شہزادہ حکومت کرتا تھا
وہاں ہوائیں سنسنا رہی ہیں
یہاں کبھی وہ شخص رہتا تھا
جسے غریب کی آہ سنائی نہ دیتی تھی