Month: 2022 اپریل


بزدلوں کی سامراج مخالفت

ادہر بزدلوں کی سپاہ پاکستانی فوج کو للکار رہی ہے مگر ٹوئٹر ہینڈل کی مدد سے، یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر۔ ’انقلاب‘کے ان ننھے ’سپاہیوں‘ کو تو اتنا بھی معلوم نہ ہو گا کہ شاہی قلعہ کس چیز کی علامت تھا، مساوات تحریک کیا تھی، رزاق جھرنا کون تھا؟ الذوالفقار کس رومانس کا نام تھا۔ ’لیبیا سازش کیس‘ کس جھوٹ کا پلندہ تھا؟ سوشلسٹ مجلہ ’جدوجہد‘ ایمسٹرڈیم سے کس نے کیوں نکالا یا 10 اپریل کو جب بے نظیر بھٹو واپس آئی تو وہ نظم کس نے لکھی تھی جو بی بی نے مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پڑھی تھی۔

اگر عمران خان اینٹی امریکہ ہوتا؟

عمران پچھلے عرصہ میں مزید مذہبی ہو چکا تھا، جادو ٹونے پر یقین کر رہا تھا، طالبان کی حمایت کر رہا تھا اوروہ تاریخی مہنگائی کا موجد تھا۔ وہ اس کوشش میں تھا کہ پاکستان کے مذہبی گروہوں کی حمایت کو بھی اپنی گرہ میں ڈال لے۔ آپ جس قدر رائٹ ونگ پالیسیاں اختیار کریں گے، اس قدر ہی مذہبی انتہا پسند تنظیمیں مضبوط ہوں گی۔

جموں کشمیر: عبدالقیوم نیازی بطور وزیر اعظم ’عید‘ منا سکیں گے؟

وزیر اعظم پاکستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے وزیر اعظم عبدالقیوم خان نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

کیا سوشلزم صرف مغربی ملکوں کے لئے ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف مزدوروں پر اس قسم کے جبر کو جاری رکھتا ہے بلکہ وہ سماجی سطح پر اس ماحول کو فروغ دیتا ہے جس میں اس استحصال کو جائز سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جاتا ہے۔ یہ نظریہ فرینز کافکاکے ناول کے ایک کردار گریگر سمسا کی طرح لوگوں کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا کر معاشرے میں تنہا کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کو رد کرنے اور اس کی جگہ ایک منصفانہ نظام کے قیام کی کوششیں عالمگیر نوعیت کی ہیں جنہیں صرف یورپی ممالک تک محدودنہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوشلزم ایک عالمی نظریہ ہے جس کی بنیاد انسانی فلاح و بہبود پر رکھی گئی ہے۔

’حکومت سے امید نہ اپوزیشن سے، عمران کو ہٹانے کے لئے ناگزیر ہوا تو عدم اعتماد کروں گا‘

اپوزیشن نے ہی رابطہ کیا تھا۔ اپوزیشن کے اجلا س میں مجھے بلایا گیا تھا، لیکن میں نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اپوزیشن کے لوگ میرے پاس آئے تھے۔ میں نے انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ حکمرانوں کے مفادات کی لڑائی اپنی جگہ پر ہے، ہم ایسے لوگ نہیں ہیں۔ میں آپ لوگوں سے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی توقع نہیں رکھتا، نہ ہمارے کوئی مفادات ہیں اور نہ کسی چیز کی لالچ ہے۔ ہم نے جو وقت گزارنا تھا، جیسا تیسا گزار لیا ہے۔ جب بھی موقع ملا میڈیا پر بھی آؤں گا اور عوام کے پاس بھی جاؤں گا، جب تک مسائل حل نہیں ہوتے، تب تک آواز اٹھاتا رہوں گا۔

ابسولوٹلی ناٹ: سپریم کورٹ کا فیصلہ

اب اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ ان سے بہتری کی امید رکھنا مشکل ہے۔ شہباز شریف تو ہر صورت نجکاری کو فروغ دے گا۔ تیزی سے سرکاری ادارے بیچنے کی کوشش کرے گا۔ مزید قرضے حاصل کرے گا مگر یہ سب کچھ محنت کش طبقات کے لئے نہیں اپنے سرمایہ دار طبقہ کے لئے۔ ضرورت ہے ایک آزادانہ انقلابی آواز اور تنظیم تعمیر کرنے کی جو ان سرمایہ دار طبقات پر خوش فہمیاں رکھنے کی بجائے بائیں بازو کے نظریات کی تعمیر کرے۔ ایک سے جان چھوٹے گی تو دیکھیں گے کہ نئے حکمرانوں کی کیا چال ڈھال ہے۔ اگر عمرانی وطیرہ رہا جس کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے تو پھر محنت کش طبقات کو منظم کرنے کی مہم پہلے سے بھی زیادہ تیز کریں گے۔

احمقوں کی سامراج مخالفت

ملٹی نیشنل کمپنیوں کو وہ ملک زیادہ سود مند دکھائی دیتے ہیں جہاں عوام پر شدید جبر ہو، ٹریڈ یونینز مفقود یا کمزور ہوں اور شہری حقوق سلب کئے جا چکے ہوں۔ بنیاد پرست یہ تمام خدمات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کی سامراج مخالفت کو احمقوں کی سامراج مخالفت ہی کہا جا سکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ جی بی سے متعلق خبر دینے والا صحافی ’ٹرولز‘ کے نشانے پر

”میں اپنی سٹوری پر قائم ہوں۔ یہ ان دستاویزات پر مبنی ہے جو خالد خورشید نے بار کونسل میں جمع کروائی ہیں۔ ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں، گواہ بھی موجود اور زندہ ہیں۔ اب وہ ایک اور ڈگری شیئر کر رہے ہیں، جو انہیں مزید مصیبت میں ڈالنے جا رہی ہے۔“