Month: 2022 اپریل


’زر خریدوں‘ کے جھرمٹ سے باہر جھانکا تو سوالات نے سیخ پا کر دیا

ترقی پسند رجحانات اور بالخصوص طالبعلموں اور نوجوانوں کو انتہا پسندانہ رجحانات کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کا راستہ روکنے کیلئے عملی سیاست میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

قصہ دو تقریروں کا

علی وزیر، عمر خالد سمیت مقدمات میں الجھا کر جیلوں میں بند کئے جانے والے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے نمائندوں، جبری طور پر گمشدہ کئے گئے اور ماورائے عدالت ہلاک کئے گئے ہزاروں سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں انصاف دلانے کیلئے طبقاتی تفریق اور جبر پر مبنی اس نظام کے خلاف جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔

’مارچ میں بھی 77 افراد لاپتہ ہوئے‘

لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم انکوائری کمیشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کے بعد دفن ہو گئی تھی۔ اب جب وہ سامنے آئی ہے تو اس کے وہ صفحات ہی صاف ہیں جن پر حل تجویز کیا گیا تھا۔ 2010ء میں یہ رپورٹ لکھنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے جسٹس کمال منصور عالم کی موت ہو گئی تھی۔ ہمارا عدالت سے مطالبہ ہے کہ اس رپورٹ کا خفیہ حصہ پبلک کیا جائے۔

آج ’جدوجہد‘ کی تیسری سالگرہ ہے

ہماری اگلی کوشش ہو گی کہ نہ صرف کل وقت عملے میں اضافہ ہو سکے بلکہ ’جدوجہد‘ کی پہنچ میں اضافہ ہو۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے ’جدوجہد‘ کی معاشی حالت کو بہت بہتر بنانا ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے: انقلابی سیاست ہو یا صحافت، دونوں کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس وقت بچتا ہی نہیں کہ وہ دانشورانہ اور انقلابی سیاست میں حصہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل وقتی کامریڈز کا انتظام کرنا دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں اور ٹریڈ یونینز کا بنیادی چیلنج رہا ہے۔ اسی طرح، آن لائن اخبار ہونے کی وجہ سے اگر ’جدوجہد‘ کو اپنی آؤٹ ریچ میں اضافہ کرنا ہے تو بھی فیس بک اور ٹوئٹر کو بھاری فیس ادا کرنا ہو گی۔ امید ہے اپنے حامیوں اور قارئین کی مدد سے آنے والے دنوں میں یہ مقاصد بھی حاصل کر سکیں گے۔ ہمارا ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے علاوہ فیکٹریوں اور دفاتر میں پہنچیں اور تعارفی سیمینارز کی شکل میں ’جدوجہد‘ کو متعارف کرائیں۔ صرف معیاری اخبار نکالنا کافی نہیں۔ اسے ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ہی اصل کامیابی ہو گی۔

سویڈن: ’بایاں بازو نیٹو رکنیت کے خلاف ہے مگر یوکرین پر حملے نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے‘

رواں سال جون کے آخر میں منعقدہ نیٹو سربراہی اجلاس میں فن لینڈ کے ہمراہ سویڈن بھی نیٹو رکنیت کیلئے درخواست جمع کروانا چاہتا ہے۔ تاہم سویڈن میں نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے رائے منقسم ہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے صورتحال پیچیدہ بنا دی ہے۔

مولانا فضل الرحمان محسن داوڑ سے خوفزدہ کیوں؟

مولانا فضل الرحمان کی سیاست مذہب، پدر شاہی، قدامت پرستی اورطالبان کے سرعام حمایت پر مبنی ہے۔ دوسری طرف محسن داوڑ سیکولر سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ باچا خان کی سیاست، انسان دوست روایات کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں اور طالبان کے انتہائی مخالف اور ناقد ہیں۔