آکسفورڈ پاکستان پروگرام کے زیر اہتمام یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال میں یہ پورٹریٹ نصب کیا گیا ہے۔

آکسفورڈ پاکستان پروگرام کے زیر اہتمام یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال میں یہ پورٹریٹ نصب کیا گیا ہے۔
انہوں نے آزربائیجان کے دورے سے واپسی پر صحافیوں کو بتایا کہ ’جب تک طیب اردگان جمہوریہ ترکی کا سربراہ ہے، ہم یقینی طور پر ان ممالک کو نیٹو میں شمولیت کیلئے ’ہاں‘ نہیں کہہ سکتے جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔‘
’سی این این‘ کے مطابق 98 فیصد ووٹوں کی گنتی کے ساتھ ابتدائی نتائج میں بائیں بازو کے امیدوار گسٹاووپیٹرو کو 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ برتری حاصل ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق پروگرامات کے سوال پر سمیع ابراہیم اور عمران ریاض نے مطیع اللہ جان پر ذاتی حملے شروع کر دیئے اور سمیع ابراہیم نے یہاں تک الزام عائد کر دیا کہ مطیع اللہ جان کو فوج سے اس لئے نکالا گیا کیونکہ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے ساتھ ایک کمرے میں زیادتی ہوتی رہی، انکا ریپ کیا گیا۔
(۱) چھوٹے کسانوں کے لئے نئی ٹیکنالوجی تا کہ وہ ہل چلا سکیں اور ڈرپ ٹیکنالوجی تا کہ فصلوں کو پانی کی فراہمی کو جدید بنایا جا سکے (۲) ٹنل فارمنگ تا کہ کنٹرولڈ ماحول میں آف سیزن اعلیٰ درجے کی سبزیاں بھی پیدا کی جا سکیں (۳) ایسی کھادیں جو متعلقہ زمین کے لئے سود مند ہوں (۴) انفا رمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایسے پلیٹ فارم بنائے جائیں جہاں یہ معلومات دستیاب ہوں کہ بر آمدات کے لئے کونسی مصنوعات دستیاب ہیں، اسی طرح ہر کسان بارے یہ معلومات دستیاب ہوں کہ وہ جو فصل پیدا کرتا ہے یا اس کی پیکنگ اور سٹوریج کا معیار عالمی ضابطوں کے مطابق ہے۔
دوسری طرف سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی سرکردہ رہنما شیریں مزاری ہیں۔ جنہیں بظاہر غریب مزارعوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہڑپ کرنے کے ایک خاندانی کرپشن کے مقدمہ میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ناقدین اس گرفتاری کو فوج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا رد عمل قرار دے رہے تھے۔ تاہم ان کیلئے رات گئے عدالت العالیہ کے نہ صرف دروازے کھولے گئے بلکہ انکی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ انہوں نے رہائی کے بعد گرفتاری کا الزام شہباز شریف حکومت پر دھرا، تاہم ان کی وکیل اور بیٹی ایمان مزاری نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان کا ایک دھواں دار ویڈیو بیان چند ہی لمحوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔
تاہم شاہ محمود قریشی اگلی مہم جوئی میں عمران خان کے ساتھ نہیں ہونگے۔
دی فرائیڈے ٹائمز کے معروف کالم ’سچ گپ‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اوورسیز پاکستانی کے ووٹنگ حقوق ختم کرے پر کوئی احتجاج بلکہ ایک سرگوشی بھی نہ کرنے کی وجہ ’بوائز‘ کی جانب سے قوی مفاد میں ’بیک ڈور‘ حل کی سہولت فراہم کی جانا تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی مضبوط نمائندگی ہے، زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانیوالی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پربحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمائندگان اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
’جمعیت ایک شکست خوردہ وحشت ہے۔ طلبہ کی مشترکہ جدوجہد ہی اس کو ہمیشہ کے لیے دفن کر سکتی ہے۔ اس کا کھوکھلا پن ہی اس کے پرتشدد ہونے کی دلیل ہے۔ یہ صرف انتظامیہ اور ریاستی سرپرستی کے باعث اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اور لاہور پولیس کی جانب سے چیئرمین پشتون کونسل پنجاب یونیورسٹی ریاض خان سمیت 25 طلبہ کی گرفتاری نے انتظامیہ جمعیت گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ جمعیت کی ریاستی و انتظامی سرپرستی بند کی جائے اور اس کو کالعدم قرار دیا جائے۔‘