Month: 2022 ستمبر


پاکستان سیلاب سے نہیں، مسلسل ریاستی نااہلیوں کی وجہ سے ڈوبا

سیلابی پانی کے زرعی زمینوں سے اترنے کے حوالے سے دو ماہ کا وقت لگنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں خوراک کا اہم ذریعہ سمجھی جانے والی گندم کی فصل کی سالانہ کاشت متاثر ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گندم کی فصل کاشت کرنے کا سیزن آئندہ ماہ شروع ہو رہا ہے، جبکہ زرعی زمینیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ سیلابی پانی اترنے کے بعد بھی زمینوں کو قابل کاشت ہونے تک تین سے چار ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں خوراک درآمد کرنا پڑے گی، جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ سیلاب سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ کچھ اشیا کی قیمتیں میں 500 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

جاپان: مارکسزم اور ماحولیات سے متعلق کتاب کی 5 لاکھ کاپیاں فروخت

سائتو نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (ایس ڈی جیز) کو عام عوام کیلئے ایک نئی افیون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’معاشی نظام کے بارے میں کچھ بھی تبدیل کئے بغیر ایکو بیگز اور بوتلیں خریدنا…ایس ڈی جیز نظام کے مسائل کو چھپاتے ہوئے ہر چیز کو فرد کی ذمہ داری کے ذریعے سے کم کرنے کا کہتے ہیں، جبکہ کارپوریشنوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داریوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔‘

سیلاب: 65 فیصد اہم غذائی فصلیں تباہ، 30 لاکھ مویشی ہلاک

اگر سیلاب کا پانی جلد کم ہو جاتا ہے تو پاکستان اب بھی کچھ زرعی زمین بچا کر بدترین صورتحال سے بچ سکتا ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر گندم اور چاول کی فصلیں صوبہ پنجاب میں ہوتی ہیں، جو سیلاب سے زیادہ متاثر نہیں ہوئیں۔ تاہم سیلاب کے بحران کے عالمی مضمرات ایک اور آفت سے بچنے کیلئے عالمی تعاون کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

پاکستانی سرمایہ داری کا تاریخی بحران

پاکستانی سرمایہ داری تاریخی بحران سے دوچار ہے اور ملک کو سماجی و معاشی طور پر ترقی دینے کے لئے جو دیوہیکل وسائل درکار ہیں وہ سرمایہ داری کے تحت میسر نہیں ہو سکتے۔ مذکورہ بالا اشارئیے ماضی میں بھی کسی بڑے معاشی معجزے کا پیش خیمہ نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ مزید ابتری کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کیفیت میں یہاں کسی معاشرتی و سیاسی استحکام کا قیام بھی محال ہے۔

امریکی تاریخ میں پہلی بار 5 سوشلسٹ امریکی کانگرس کے رکن ہیں

اکثربائیں بازو کے کارکنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جمہوریت کے دفاع کے لئے مزدوروں، خواتین، پیپل آف کلر کو منظم کیا جائے مگر ان کی اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ 2020ء میں جب بلیک لائیوز میٹر نامی تحریک چلی تو اس میں ڈیڑھ دو کروڑ لوگوں نے حصہ لیا۔ ایسی تحریکوں کو سیاست کی جانب آنا چاہئے تا کہ طاقت کا توازن بدلا جا سکے۔

سویڈن: کل عام انتخابات ہوں گے، لیفٹ اور رائٹ بلاک میں سخت مقابلہ

بورژوا بلاک کی ایک جماعت (سنٹر پارٹی) نے سوشل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹی کے ساتھ بلاک بنا لیا ہے مگر ان کا مطالبہ ہے کہ اگر اس بلاک نے حکومت بنائی تو لیفٹ پارٹی کو اس سے باہر رکھا جائے۔ روایتی طور پر اس بلاک میں سوشل ڈیموکریٹس، گرین اور لیفٹ پارٹی (سابقہ کیمونسٹ پارٹی) شامل تھے۔ سنٹر پارٹی کا معاشی ایجنڈا بہت ہی نیو لبرل ہے۔ اسے عموماً اور تاریخی طور پر کسانوں کی جماعت کہا جاتا ہے۔

ہم جو کہہ کر غدار ٹھہرے، اب ان کے اپنے وہی کہہ رہے ہیں: علی وزیر

ایک اور سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ ابھی بھی 90 فیصد عسکری ادارے عمران خان کے پیچھے ہیں، یہی اس کی قوت ہیں۔ یہ بات عمران خان کے اقدامات سے عیاں ہو جاتی ہے۔ جو عمران خان بیانیہ دیتے ہیں، جو خطاب کرتے ہیں اور جیسے اداروں کا کھل کر نام لیتے ہیں، ریاستی ادارے پیچھے نہ ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا ہے۔