مزید پڑھیں...

گلگت بلتستان: منجمد کرنے والی سردی میں ہزاروں افراد سڑکوں پر، لیکن میڈیا خاموش

گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گزشتہ 12روز سے احتجاجی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ منجمد کردینے والی سردی میں سکردو سمیت مختلف اضلاع میں احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ آج تیرہویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہو رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پر اس تحریک کو کہیں جگہ نہیں مل رہی۔ دوسری طرف احتجاجی تحریک میں شامل رہنماؤں کو انسداد دہشت گردی کے تحت بنائے گئے قانون شیڈول فور میں شامل کرنے کا عمل جاری رکھا گیا ہے۔

بلوچستان: ریاستی جبر کو للکارتی عوامی مزاحمت

حکمران طبقہ ریاست کے وجود کو اس لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ ریاست شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرتی ہے۔کہنے کوتویہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام شہری آئین و قانون کا احترام کریں، مگر درحقیقت ریاست انسان کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے نہیں بلکہ اس وقت وجود میں آئی جب سماج کی طبقات میں تقسیم ہوئی۔

عام انتخابات: محنت کشوں کیلئے کوئی پروگرام نہیں

پاکستان میں فروری کے عام انتخابات کیلئے محنت کش طبقے میں بہت کم جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ جزوی طور پر اس بڑی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہے، جو انتخابات کے انعقاد کے امکانات کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے محنت کش اب بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں یقین ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہ مزدوروں کی بہبود کیلئے اپنے مطالبات پر آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تمام افراد کی رہائی تک احتجاج اور روڈ بلاک جاری رہے گا: بلوچ یکجہتی کمیٹی

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے دو دنوں سے جو کچھ ہوا ہے وہ بلوچ قوم، انسانی حقوق کے ادارے، میڈیا اور دنیا کے سامنے ہے کہ ریاست بلوچستان اور بلوچوں کے حوالے سے کیا سوچتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کیچ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ مکمل جو 16 سو کلومیٹر طے کرکے اسلام آباد اس آسرے پر پہنچا کہ شاید یہاں میڈیا، عدالتیں اور ریاستی حکمران موجود ہیں۔انہیں شاید ان بوڑھی ماؤں اور بہنوں پر ترس آئے،جن کے پیارے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں،اور حالیہ دنوں جس طرح فیک انکاؤنٹر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو ختم کیا جائے۔ سی ٹی ڈی جیسے دہشتگرد ادارے،جو اس وقت بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی میں ملوث ہیں،انہیں مکمل طور پر غیر فعال کرتے ہوئے بلوچوں کو سکون سے جینے دیا جائے،لیکن ریاست اس کے برعکس لانگ مارچ کا اسلام آباد میں کسی اور طریقے سے انتظار کیاجا رہا تھا۔

اعلان تعطیل: جدوجہد کا اگلا شمارہ 8 جنوری کو شائع ہو گا

معزز قارئین! ’روزنامہ جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کی جانب سے ہم آپ کیلئے ایک پر مسرت نئے سال کی خواہشات کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے ہماری حوصلہ افزائی جاری رکھی، جس کا نتیجہ ہے کہ ’جدوجہد‘ کا نام ملک کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔
گزشتہ 4 سال کی طرح، امسال بھی ہم تقریباً 2 ہفتے کی سالانہ تعطیل کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس تعطیل کا مقصد اک طرف ہمارے کل وقتی عملے کو چھٹیوں کی سہولت فراہم کرنا ہے، تو دوسری جانب اگلے سال کی منصوبہ بندی، ویب سائٹ کی ڈویلپمنٹ وغیرہ شامل ہوتی ہے۔
ہمارا اگلا شمارہ 08 جنوری کو شائع ہو گا۔
ہمیں امید ہے کہ آپ کے تعاون سے ’جدوجہد‘ نئے سال میں سوشلزم کی مزید توانا آواز بن کر اپنا سفر جاری رکھے گا۔

بلوچ لانگ مارچ: بلوچستان بھر میں ہڑتال، مختلف شہروں میں مظاہرے، آج اسلام آباد میں دھرنا ہو گا

بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد میں پولیس تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف جمعہ کے روز بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئیں۔ بلوچستان کو پنجاب اور کراچی سے ملانے والی شاہراہوں کو بند کیا گیا اور بلوچستان کے مختلف شہروں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔

ماہ رنگ بلوچ سمیت 200 مظاہرین کی گرفتاری قابل مذمت ہے: حقوق خلق پارٹی

حقوق خلق پارٹی کے صدر فاروق طارق اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عمار علی جان نے بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پولیس تشدد اور گرفتاریوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور حکومت سے تمام گرفتار بلوچ مظاہرین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بلوچ خواتین پر تشدد اور گرفتاریاں محکوم قوموں کیخلاف ریاستی رویے کا عکاس ہے: این ایس ایف

جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اسلام آبادمیں بلوچ مظاہرین بالخصوص خواتین پر ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ریاستی جبر محکوم قوموں کے حوالے سے رویے کا عکاس ہے۔ بلوچ عوام کے مطالبات کو فوری طورپر منظور کیا جائے اورلانگ مارچ کے شرکاء کے خلاف قائم کئے گئے تمام بے بنیاد مقدمات فوری طورپر ختم کئے جائیں۔ پر امن احتجاج کا حق استعمال کرنے دیا جائے اور احتجاج کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے اجتناب کیاجائے۔

حکومت کو بلوچ مظاہرین کو سُننا، عورتوں کو رہا کرنا ہو گا: ایچ آر سی پی

چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پُرامن مظاہرین کے ساتھ ریاست کا رویہ ایچ آر سی پی کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے خلاف غیر ضروری طاقت استعمال کی گئی۔ اُن پر پانی پھینکا گیا اور لاٹھیاں ماری گئیں۔ اطلاعات کے مطابق، کئی عورتوں کوگرفتار کر کے اُنہیں اُن کے مرد رشتہ داروں اور ساتھیوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ لانگ مارچ کی کوریج کرنے والی کم از کم ایک بلوچ خاتون صحافی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

خواتین کی قیادت میں اسلام آباد کے ایوانوں پر دستک دیتی بلوچ مزاحمت

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل عام کی تاریخ بھی نئی نہیں ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان میں دو ایسے صوبے ہیں، جہاں سب سے زیادہ افراد دکو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا ہے اور ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پشتونوں کو ریاستی جبر، اغواء اور ماورائے عدالت قتل عام کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم بلوچستان میں یہ سلسلہ زیادہ تر قومی محرومی کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں نظر آرہا ہے۔