فاروق طارق
پاکستان میں فروری کے عام انتخابات کیلئے محنت کش طبقے میں بہت کم جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ جزوی طور پر اس بڑی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہے، جو انتخابات کے انعقاد کے امکانات کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے محنت کش اب بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں یقین ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہ مزدوروں کی بہبود کیلئے اپنے مطالبات پر آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بے حسی ایک تلخ سیاسی حقیقت کے طو ر پر محنت کشوں پر چھائی ہوئی ہے۔ زیادہ ترمحنت کشوں نے یہ امید بھی کھو دی ہے کہ مرکزی دھارے کی کوئی بھی پارٹی ایسی پالیسیاں بنائے گی، یا ان پر عملدرآمد کرے گی، جو محنت کشوں کے حق میں ہوں۔
محنت کش طبقے کے علاقوں میں تنظیم سازی کرنے کے برسوں کے تجربے سے یہ واضح ہے کہ زیادہ تر محنت کش طبقے کے لوگ مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔
متعدد مواقع پر دھوکے کھانے کے بعد محنت کشوں کو توقع ہے کہ انتخابات کے بعد ان کی زندگی اور مصائب میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
سیاق و سباق اہم ہے۔ پاکستان کے کئی حصوں میں لیبر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ بہت سی فیکٹریاں ورچوئل غلاموں کے کیمپوں میں تبدیل ہو چکی ہیں، کیونکہ محکمہ لیبر کے اہلکار شاذو نادر ہی ان کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں۔
یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اہلکار صرف انسپکشن نہ کرنے کے بدلے رشوت وصول کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر لاہور اور کراچی میں سب سے زیادہ لیبر قانون کی خلاف ورزی کم از کم اجرت،یعنی 32000روپے ماہانہ اور ہفتے میں 44گھنٹے کام کیلئے ادائیگی،پر عملدرآمد نہ کرنا ہے۔
اس بار زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے محنت کش طبقے سے کوئی اہم وعدہ بھی نہیں کیا۔ صرف بلاول بھٹو نے 27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی 16ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ”ہمارا منصوبہ ہے کہ ہم پانچ سالوں میں تنخواہوں کو دوگنا کر دیں گے۔“تاہم اس عہد کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہوتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ وعدہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دوران کافی بھی ہوگا یا نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز نے ابھی تک اپنے منشور کا اعلان نہیں کیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف بھاگ رہی ہے۔
زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں زیادہ تر ٹریڈ یونینوں کے اس مطالبے پر توجہ نہیں دی گئی کہ کم از کم اجرت کو بڑھا کر 50ہزار روپے ماہانہ کیا جائے۔
پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت کے بہتر اقدامات، پنشن فنڈز میں اضافہ، جبری اور چائلڈ لیبر کے خلاف کریک ڈاؤن، غیر رسمی محنت کشوں کیلئے لیبر حقوق اور گھر پر کام کرنے والی خواتین ورکرز سمیت تمام محنت کشوں کیلئے سوشل سکیورٹی کارڈ کے اجراء سمیت کسی بھی لیبر ایشو کو حل کرنے کیلئے شاید ہی کسی سیاستدان نے کوئی سنجیدہ اقدام کیا ہو۔ عام انتخابات میں جیتنے والے ممکنہ طور پر نجکاری اور نیو لبرل ایجنڈے کو نافذ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جو درحقیقت ملازمتوں میں کمی، عدم مساوات میں اضافے، اور امیر و غریب کے مابین خلیج کو وسیع کرنے کا ایجنڈا ہے۔
ان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ’معاشی اصلاحات‘ کو جاری رکھنے کیلئے ایک مستحکم حکومت موجود ہو۔ ان معاشی اصلاحات میں زمین، صنعت اور سرکاری اداروں کو نجی استحصال میں منتقل کرنا شامل ہے۔ کارپوریشنوں کو سرکاری اراضی کی منتقلی سے پاکستان میں زرعی شعبے پر نمایاں اثر پڑے گا۔
کسانوں کو مزدور قانون کے تحفظ سے باہر رکھا گیا ہے۔ 2022کے سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہونے والے مزدوروں اور کسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو معاوضۃ نہیں دیا گیا اور کوئی بھی سیاسی جماعت ان سے کوئی وعدہ نہیں کر رہی ہے۔ پولنگ میں صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اور صرف ایک مرکزی دھارے کی جماعت پیپلزپارٹی نے اپنے منشورکا اعلان کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پچھلے چار سالوں میں غربت کی لکیر سے نئے20ملین لوگ شامل ہوئے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما مزدوروں کے حقوق پر ٹریڈ یونینوں سے مشورہ کرنے کی بجائے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ رابطے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔2009کے بعد سے کوئی سہ فریقی لیبر کانفرنس نہیں ہوئی۔ 1970سے اب تک ایسی صرف چار کانفرنسیں (1980، 1988، 2001اور2009) منعقد ہوئی ہیں۔اس طرح محنت کشوں کے نمائندوں سے مشاورت کا سلسلہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
جی ایس پی پلس سکیم کے تحت پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو پائیدار ترقی اور گڈ گورننس کیلئے مراعات دینے کے باوجود صنعتی ترقی میں منفی رجحان دیکھا گیا ہے۔ اکتوبر2023میں پاکستان کی صنعتی پیداوار میں 4.1فیصد کمی ہوئی۔ اس کی وجہ ٹریڈ یونینز کے بارے میں منفی رویہ ہے۔
سیاسی جماعتوں کے محنت کش طبقے سے متعلق رویوں میں تبدیلی سے ہی صورتحال بدل سکتی ہے۔ اب بھی زیادہ تر سیاستدان صنعتی اور جاگیردار طبقے سے آتے ہیں اور محنت کش عوام کی قیمت پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
جب صنعتی زوال ہوتا ہے تو اس کا پہلا شکار وہ مزدور ہوتے ہیں، جو اپنی ملازمتوں اور حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ محنت کش طبقے پر مبنی کوئی پارٹی اتنی بڑی تعداد میں سیٹوں پر الیکشن لڑنے والی نہیں ہے۔ حقوق خلق پارٹی کا منشور بہت بڑا ہے لیکن وہ صرف چند سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔
اگر اس کے تمام امیدوار منتخب ہوبھی جاتے ہیں، تب بھی مزدوروں کے مسائل سے متعلق بڑی سیاسی جماعتوں کے رویوں کو تبدیل کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔