مزید پڑھیں...

بلوچ نسل کشی کیخلاف پاکستانی عوام ہمارا ساتھ دیں، یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے: گلزار دوست بلوچ

”یہ کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے،جس کی آج قیادت ماہ رنگ بلوچ، آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور بربریت کے خلاف پاکستان بھر کے عوام اسی طرح ہمارا ساتھ دیں اور سرکاری بیانیہ کو مسترد کریں۔ یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے اور تمام مظلوم مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ مقابلے میں لگایا گیا دھرنا ریاست کے کارندوں کا ہے۔ ریاست کے یہ حربے عوام ناکام بنائیں گے۔“

طالبان کا افغانستان: غریب افغان بیٹیاں بیچنے پر مجبور

طالبان کے افغانستان میں غربت سے تنگ افغان 8سے10سال کی کم عمر بیٹیوں کو شادی کیلئے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہیرات صوبے کے شاہرکِ سبز علاقے میں قائم خیمہ بستی میں بے گھر افراد نے 118لڑکیوں کو چائلڈ دلہن کے طور پر فروخت کیا اور 116خاندان لڑکیوں کے خریداروں کے انتظار میں تھے۔ یہ سروے 40فیصد خاندانوں کے برابر ہے۔

تکنیکی خرابی کے باعث 3 روز بندش کے بعد ’جدوجہد‘ کی ویب سائٹ بحال ہو گئی

تکنیکی مسائل کو اب حل کر لیا گیا ہے اور دوبارہ ویب سائٹ مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے۔ اگر قارئین کو پھر بھی ویب سائٹ موبائل یا لیپ ٹاپ پر اوپن کرنے میں مسئلہ درپیش آئے تو انٹرنیٹ براؤزنگ ہسٹری کلیئر کرنے کے بعد کوشش کریں۔

لاپتہ افراد کمیشن: 8 کروڑ 28 لاکھ کی سالانہ تنخواہیں، نتیجہ صفر

پاکستان کی وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کی مدت میں تاحکمِ ثانی توسیع کر دی گئی ہے۔ ماضی لاپتہ افراد کمیشن کی مدت میں 6ماہ سے تین سال تک کی توسیع کی جاتی تھی۔ تاہم اب غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی گئی ہے۔

میزائل حملے کے خطرے نے پاکستان کو ابھی نندن کی رہائی پر مجبور کیا: بھارتی سفارتکار کا دعویٰ

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو یہ خطرہ تھا کہ بھارت نے 9میزائل پاکستان کی جانب نصب کر رکھے ہیں اور کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کی وجہ سے پاکستان نے نہ صرف بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا بلکہ پلوامہ حملے پر بھارتی ڈوزئیر کے مطابق ایکشن لینے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔

شدید سردی میں حکمران جی بی کی عوام کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہم لڑیں گے: شبیر مایار

”گلگت بلتستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔حکمران گندم جیسی بنیادی سہولت تک رسائی بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ 17روز سے احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور سکردو میں منفی 12سے 15درجہ حرارت کی شدیدسردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں لیکن مطالبات کی منظوری کی بجائے شیڈول فورمیں نام کے اندراج کی صورت تحفہ دیا جا رہا ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے ہم ہر سطح تک جائیں گے۔“
شبیر مایار کا تعلق بلتستان کے ضلع کھرمنگ سے ہے۔ وہ متحرک ترقی پسند قوم پرست رہنما ہیں اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کی قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں اور ضلع کھرمنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔

یہ بیانئے کی جنگ نہیں ہے: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

مظاہرین جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور نجی ملیشیاؤں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتدائی طورپر بالاچ کی لاش کے ساتھ تربت احتجاج جاری رہا، لیکن حکومت نے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ریلی کی شکل میں کوئٹہ کی طرف بڑھتے ہوئے مظاہرین کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور حکومت نے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والوں کی گرفتاریوں، من گھڑت مقدمات کے اندراج اور 44سرکاری ملازمین کو روزگار سے برطرف کر کے سخت رد عمل ظاہر کیا۔

امریکہ، اسرائیل اور غریدہ فاروقی کا سانجھا دکھ

بے گناہ، بے چارے انکل سام اورمعصوم صیہونی نازیوں کی طرح بھولی بھالی غریدہ فاروقی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم پنجابی مزدورں کی یاد میں اسلام آباد پریس کلب میں کیمپ لگانے کی بجائے را سے ساز باز کرنے والے نام نہاد لاپتہ افراد کا ماتم کیوں کر رہی ہے۔
وہ تو شکر ہے بلوچ دھرنے کی کوریج کے لئے بھیجنے والوں نے غریدہ فاروقی کو کبھی ڈھاکہ نہیں بھیجا ورنہ وہ حسینہ واجد سے ضرور پوچھتیں کہ آپ نے ریپ ہونے والی بے شرم بنگالی عورتوں کے فحش مجسمے تو چوکوں میں لگا رکھے ہیں مگر کیا آپ مکتی باہنی کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے پاکستانی سپاہیوں کو شہید کیا؟

اسلام آباد بلوچ دھرنا: اتحاد، یکجہتی اور نظم و ضبط کا آنکھوں دیکھا حال

احتجاجی دھرنا کو منظم کرنے کیلئے جس رضاکارانہ نظم و ضبط، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پولیس کی لگائی گئی خاردار تاروں کے اندر موجود احاطہ کو رسیوں کی مدد سے بلوچ رضاکاروں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ خواتین کیلئے ایک خیمہ لگایا گیا ہے، جہاں کمبل اور خود کو گرم رکھنے کیلئے دریاں اور چٹائیاں بچھائی گئی ہیں۔ خواتین کے خیمہ کو ہی دھرنے کے مرکزی پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور قیادت بھی اسی خیمہ میں موجود رہتی ہے۔سامنے کی جگہ چھوڑ کر خیمہ کے تین اطراف رسیاں لگا کر راستے بند کئے گئے ہیں اور ہر طرف بلوچ رضاکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ خیمہ کی جانب داخل ہونے کیلئے ایک جگہ رسیوں کا ہی گیٹ نما بنایا گیا ہے، جہاں ہر وقت دو بلوچ رضاکار نوجوان موجود رہتے ہیں۔ ہر کچھ گھنٹے بعد وہ نوجوان تبدیل ہوتے ہیں، لیکن خیمہ کی طرف جانے والے ہر شخص کا مکمل تعارف اور تفصیل ان رضاکار نوجوانوں کے پاس نوٹ بک پر درج ہوتی ہے۔ میڈیا کے علاوہ اہم شخصیات، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور خواتین کو اس راستے سے خیمہ کی طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

بات مارشل لا کی طرف جا سکتی ہے

عسکری ریاست کا بحران اتنا بڑا ہے کہ فوج مارشل لاء لگانے کے قابل نہیں رہ چکی۔ فوج کی کوشش ہے کہ ہائبرڈ حکومت قائم کی جائے۔مصیبت یہ ہے کہ پہلے ناکام ہائبرڈ تجربے کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگلا ہائبرڈ تجربہ ابھی تو لانچ ہی ہوا نہیں اور ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔