سوشل میڈیا پہ اکثر بائیں بازو کے نظریات، حکمتِ عملی اور طریقہ کار پر تنقید سلسلہ لگا رہتا ہے۔اس میں مخالفین سے زیادہ بائیں بازو کے وہ کارکنان ہیں،جو بہت جلدی میں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ انقلاب ہونہ سکا تو اب مایوسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر مصنوعی تنقید کے ذریعے اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ان میں بائیں بازو کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کے لیے باقی رجحانات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پوسٹوں کی حد تک ہی ہو رہا ہے، جو کوئی سنجیدہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔
مزید پڑھیں...
پاکستانی جنگوں کی متبادل تاریخ
تبصرے کے آخر میں دو معروضات کرنا چاہوں گا۔ اؤل، طارق رحمن نے ایک گروہ یا اوپری ٹولے کے حوالے سے بحث کو بہت آگے نہیں بڑھایا۔ کیا جنگ کے فیصلے بہرحال اوپر بیٹھے ٹولے ہی نہیں کرتے؟ جہاں عوام کی حمایت درکار ہو، حکمران کامیابی سے جنگی جنون پیدا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح عراق پر انتہائی بلاجواز حملے کے لئے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹولے ہی کرتے ہیں، چاہے یہ فیصلے خفیہ ہوں یا عوام کو بے وقوف بنا کر۔ اس بابت کتاب میں تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔ دوم، اس میں شک نہیں کہ 1971ء کے دوران بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا البتہ 1965ء کی جنگ میں ان پر، اس کتاب میں، ضرورت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کا دستاویزی ثبوت بہت متاثر کن نہیں۔
شاک ڈاکٹرئن اور 16 دسمبر
کبھی کبھار، بین السطور اصل وجوہات کی بات بھی ہو جاتی۔ ’آزاد‘ میڈیا نے 16 دسمبر والے دن ’سقوط ڈھاکہ‘ کو شہ سرخیوں سے کیا، تاریخ سے ہی خارج کر دیا۔ برا ہو سوشل میڈیا کا جو تجارتی میڈیا کا پردہ چاک کردیتا۔ پھر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ رونما ہو گیا۔ عین 16 دسمبر کے دن۔
فلم اینیمل، سواستیکا کی تقسیم، پنجابی قومیت
فلم میں جو خاندانی دشمنی دکھائی گئی ہے،اس کی تہہ میں پنجاب کی تقسیم (اس تقسیم سے مراد ہندوستان کی تقسیم ہے کیونکہ حقیقت میں ہندوستان تقسیم نہیں ہوا بلکہ پنجاب اور بنگال ہی تقسیم ہوئے تھے۔ پنجاب کی تقسیم صدی کا سب سے خونریز واقعہ تھا، جس میں ایک ہی قوم نے اپنے ہی ہاتھوں بظاہر مذہبی بنیاد پر نسلی اور جینیاتی طور پر اپنے ہی کزنز کے گلے کاٹے اور اپنی ہی کزنز کو ریپ کیا تھا) کا ڈسکورس دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ، پاکستان اور 1971ء کی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی
ہنری کسنجر دو روز قبل، سو سال کی عمر میں وفات پا گئے۔وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کہا جاتا ہے (گو اس کا کبھی دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا) کہ انہوں نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کیا تو انہیں عبرت ناک مثال بنا دیا جائے گا۔
دنیا کے بے شمار ملکوں میں ہونے والے قتل و غارت میں ان کے کردار کی وجہ سے انہیں ان کے ناقدین دنیا کا سب سے بڑا جنگی سالار (وار لارڈ)قرار دیتے ہیں۔معلوم نہیں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے میں ہنری کسنجر کا کوئی کردار تھا یا نہیں، مگر 1971 کی جنگ میں ان کے کردار بارے امریکہ کے مارکسسٹ جریدے جیکوبن میں غزشتہ روز ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔
المیہ مشرقی پاکستان: شاعر بمقابلہ جرنیل اور سیاستدان
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ عام طور پر پاکستان کے ترقی پسند شاعر اور لکھاری سیاستدانوں، جرنیلوں اور نظریہ دانوں سے زیادہ بڑے وژنری ثابت ہوئے۔ جالب نے جو بات مشرقی پاکستان بابت کہی، اب لوگ بلوچستان کے حوالے سے دہرا رہے ہیں۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھو تو تاریخ لوٹ کر واپس آتی ہے۔
جموں کشمیر: ہتک عزت بل اسمبلی میں پیش، صحافت تنقید سے پاک ہوگی
بل کو پیچیدہ بنانے کیلئے براہ راست اخبار، ٹی وی، ریڈیو اور ڈیجیٹل و سوشل میڈیا کا تذکرہ کرنے کی بجائے الیکٹرانک آلات، ریڈیو ٹیلی گراف، ریڈیو ٹیلی فون، کیبلز، کمپیوٹر، وائرز، فائبر آپٹک، لنکیج یا لیزر بیم وغیرہ کے ذریعے تحریری علاماتی، سگنلز، تصاویر، آوازیں وغیرہ عوام تک پہنچانے کے ذرائع کو براڈ کاسٹنگ قرار دیا گیا ہے۔ براڈ کاسٹنگ کے ذرائع استعمال کر کے کسی بھی طرح کے زبانی، تحریری یا بصری شکل میں غلط اقدام، اشاعت یا غلط بیان کی سرکولیشن، جو کسی شخص کی شہرت کو نقصان پہنچائے، اسے دوسرے کے سامنے نیچا دکھانے کا باعث ہو، اسکا تمسخر اڑانے کا باعث ہو، اس پر تنقید کا باعث ہو، ناپسندیدگی، توہین یا نفرت کا باعث بن رہی ہو تو وہ ہتک عزت قرار پائے گی۔
وقت پھسل رہا ہے اور ہم ہدف سے گمراہ ہیں: عالمی کلائمیٹ جسٹس گروپوں کا مشترکہ بیان
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دبئی میں COP28کے خالی ہالوں میں بیٹھے ہیں اور حکومتیں کمروں میں بند، خفیہ طور پر متن پر گفت و شنید کر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں یا تو لاکھوں جانوں کی حفاظت کریں گی، یا دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کیلئے موت کے وارنٹ پردستخط کریں گی۔ ہماری بہت سی کمیونٹیز موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائنز پر ہیں، وہ ان فیصلوں سے براہ راست متاثر ہوں گی، جو ان ہالوں میں بیٹھنے والوں کی جانب سے کئے جائیں گے۔
پاکستان: 457 ارب ڈالر کی غیر رسمی معیشت سے 75 فیصد روزگار وابستہ
غیر رسمی معیشت میں جرائم اور بدعنوانی کی معیشت سے لیکر چھوٹے کاروبار، رئیل اسٹیٹ، گھریلو ملازمین اور ہر ایسی معاشی سرگرمیاں شامل ہیں جو سرکاری ریکارڈ اور سرکاری حکام کے ٹیکس سے بچ جاتی ہیں۔ اس میں کیش کے لین دین، غیر رجسٹرڈ کاروباری سرگرمیوں اور سرکاری ریکارڈ سے باہر کی ملازمتیں شامل ہوتی ہیں۔
جالب نامہ: مولانا
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا