کپل دیو
انسانی سماج انسانی محنت کا سرچشمہ ہے اور فطرت کو زیر استعمال لاکر تشکیل دیا گیا ہے۔ انسان خود کو زندہ رکھنے اور سماج کو ترقی دینے کے لیے پیداوار کرتا ہے اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتا رہتا ہے۔ انسانی تاریخ ذرائع و آلات پیداوار کی جدت اور ترقی کی تاریخ ہے۔ انسانوں کے درمیان رشتے تقسیم پیداوار اور محنت کے تعلق سے پروان چڑھتے ہیں۔ یوں پیداوار‘ ذرائع پیداوار کے ذریعے معاشی بنیادوں پر سماج کی ہیئت کو تشکیل دیتی ہے۔ معاشرتی ڈھانچہ سماج کی قدروں، انسان کی سوچ، رہن سہن اور فکر و احساس کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسی کے متعلق مارکس نے کہا تھا کہ ”مادی حالات انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ “ یعنی سوچ، شعور، رویوں اور تعلقات کی نوعیت کا انحصار مادی بنیادوں پر ہے۔
انسانی تاریخ قد یم اشتراکی دور سے جدید سرمایہ دارانہ نظام تک مختلف ادوار سے گزرتی آئی ہے۔ یہ سفر اشتراکیت سے ذاتی ملکیت کا سفر ہے جو کہ اب تک جاری و ساری ہے۔ لیکن فطرت نفی کی نفی کے جدلیاتی قانون پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ جیسے سماج کی دولت کی زائد مقدار نے ذاتی ملکیت کے وجود کا جواز پیش کیا اور قدیم اشتراکیت کی نفی کرتے ہوئے انسانی وحدت کو ختم کرکے دو متضاد طبقات کو معرضِ وجود میں لائی۔ اسی طریقے سے طبقاتی کشمکش وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتے ہوے شدید، گہری اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ سماج کی اکثریت کے ذاتی ملکیت سے محروم ہوجانے نے ذاتی ملکیت کی نفی کا جواز فراہم کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک غیر طبقاتی سماج کی ضرورت آج کا ایک اہم سوال بن چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کی وجہ ماضی کے نظاموں کی نسبت یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اب پیداوار حتمی طور پہ شرح منافع کو بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس نظام میں ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی نے جہاں سماج کو تیز ترقی دی اور پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ کیا وہیں طبقاتی کشمکش کو بھی مزید تیز کیا ہے۔ شرح منافع نے سرمائے کے ارتکاز کوشدید کر دیا ہے اور سماج کا کنٹرول چند منافع خوروں کے ہاتھوں میں جاپہنچا ہے۔ بقول مارکس کہ جیسے جیسے سرمائے کا ارتکاز چند ہاتھوں میں بڑھتا چلا جائے گا ویسے ویسے محنت کش طبقے کی سماجی بیگانگی، ذلت، محرومی اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔ نتیجتاً یہ عمل طبقاتی کشمکش کو مزید تیز کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو بغاوت پر مجبور کرے گا۔
درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کا عمل بذات خود بیگانگی کا شکار ہوتا ہے۔ انسان کا وجود فطرت سے جڑے رہنے سے ہے۔ اس نظام میں جہاں محنت کش اپنی محنت سے پیدا کردہ پیداوار سے بیگانہ ہوتا ہے وہیں سرمایہ دار کا اس پیداوار کے ساتھ محض ملکیت کی حد تک تعلق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف مزدور بلکہ سرمایہ دار بھی بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جو انسان محنت کر کے اشیا کو قدر استعمال فراہم کرتا ہے وہ نہ تو اس کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کو خود استعمال کر سکتا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دار پیداوار کے عمل میں بغیر کسی قسم کی شراکت اور محنت کے باوجود پیداوار کا مالک بن جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سماجی گھٹن اتنی بدتر ہوچکی ہے کہ پرانے روایتی انسانی تعلقات دم توڑ رہے ہیں۔ قتل و غارت گری، ریپ، خاندانی رشتوں میں انتشار، خودکشیاں اور اخلاقی گراوٹ وغیرہ شدت اختیار کر رہے ہیں۔ اس فرسودہ نظام میں ماں کی مامتا اپنی آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ پیار، محبت اور سچائی کی جگہ نفرت، جھوٹ اور حسد نے لے رکھی ہے۔ نہ صرف محنت کش طبقہ بلکہ مڈل کلاس بھی کسی طور پر زندگی سے مطمئن نہیں رہی ہے۔
دوسری جانب نظام کا بحران اس قدر شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ نسل پرستی اور قبائلیت جیسے دقیانوسی مسائل جوکہ انسانی تہذیب نے اپنے ارتقا کے عمل میں بڑی حد تک حل کر لیے تھے‘ آج اس نظام نے اپنے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے ان تمام پرانے مسائل کو سرمایہ دارانہ بنیادیں فراہم کر کے پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔
برصغیر جیسے پسماندہ خطوں میں قبل مسیح سے رائج ذات پات کے مسئلے کو آج تک یہ نظام حل نہیں کر سکا ہے۔ تجارتی سرمایہ داری سے مالیاتی سرمایہ داری تک کے سفر میں قومی مسئلہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں کسی حد تک حل کیا جا چکا تھا لیکن آج وہی قومی مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتا امریکہ جیسے جدید خطے میں جارج فلائیڈ کا نسل پرستانہ قتل واضح کرتا ہے کہ جدید ترین سماج بھی نسل پرستی کو ختم نہیں کرسکا ہے۔ مذہب کو محنت کش طبقے کا استحصال کرنے اور اپنے مالی مفادات کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی بنیادیں دے کر انسان کو قدامت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
ان تمام تر مظاہر سے ذی شعور انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ منافع کی ہوس نے سرمایہ دار کو کتنا غلیظ بنا دیا ہے کہ وہ شرح منافع کی بڑھوتری کے لیے کس حد تک گر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لیے کی جاتی ہے۔
ایسے میں ہر شعبہ یہاں تک کہ سائنسدان بھی سرمایہ داروں کے غلام ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ جیسے مشہور سائنسدان کو بھی بے بسی میں یہ کہنا پڑا کہ زمین کو چھوڑ دو اس سے پہلے کہ حکمران طبقہ اسے تباہ و برباد کر دے!
بقول مارکس سرمایہ داری دولت کے دو اہم ذرائع کو تباہ کرتی ہے: اول انسان اور دوئم فطرت۔ پچھلے نظاموں کے برعکس سرمایہ داری نے دونوں ذرائع کو قلیل وقت میں منافع کی ہوس کی بڑھوتری کے لیے بے انتہا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے جہاں انسانی تہذیب اندرونی انتشار کا شکار ہے وہیں سنگین بیرونی خطرات سے بھی دوچار ہے جو کہ کرہ ارض کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے 400 سالہ سفر میں دنیا کے وسائل کا بے تحاشہ اور غیر منصوبہ بند استعمال کیا ہے۔ اس نظام میں تضادات انتہاؤں پر پہنچ چکے ہیں۔ ایک طرف دوسرے سیاروں پہ زندگی بسائی جا رہی ہے تو دوسری طرف اسی نظام کے اندر زندگی سسکیاں لے رہی ہے۔ ایک طرف زائد پیداوار کا بحران ہے تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ تین حصہ پانی ہونے کے باوجود کرہ ارض پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس انسان صاف پانی کو ترس رہا ہے۔ ترقی یافتہ سماج میں اکثریتی آبادی بد ترین زندگی گزار رہی ہے۔ ایسی زندگی جس کا مقصد چند نوالوں تک محدود ہوکے رہ گیا ہے۔ غربت و امارت کی خلیج انسانی تاریخ کی انتہا پر ہے۔ تیسری دنیا دوہرے استحصال کی وجہ سے جدید سرمایہ دارانہ سماج بھی استوار نہیں کر سکی ہے۔ لیکن نام نہاد ترقی یافتہ ممالک، جو کہ اس نظام کی اصلیت کو چھپانے میں کافی وقت سے استعمال ہوتے رہے ہیں، کی حقیقت کو کورونا وائرس جیسی عالمی وبا نے بے نقاب کر دیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے غیر انسانی نظام ہونے کو ثابت کرنے کے لیے حالیہ کورونا وبا ہی کافی ہے۔ جہاں اس نظام میں ہتھیاروں پر بے پناہ دولت خرچ کی گئی ہے وہیں تعلیم اورصحت کے شعبوں کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ لاکھوں انسانوں کی اموات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس گیس اثر، سمندروں کی سطح کا بڑھ جانا، جنگلوں میں آگ اور طوفانوں وغیرہ جیسے بھیانک مسائل قدرتی وسائل کے بے ہنگم اور اندوہناک استعمال کا نتیجہ ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ جس سوچ نے مسائل کو جنم دیا ہے اسی سوچ سے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح جس نظام نے اپنے سفر میں انسانی تہذیب کو بھیانک مسائل میں غرق کیا ہے اسی نظام کے اندریہ مسائل ناقابل حل ہیں۔
نظام اپنے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے استحصال، ظلم اور سفاکیت کی حدیں پار کر رہا ہے۔ سرمایہ داری اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ بحران زدہ سرمایہ داری اپنے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ اینگلز کی 150 سال قبل کی ہوئی بات آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب کے پاس دو راستے ہیں: سوشلزم یا بربریت۔ نسلِ انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے کبھی بھی ہار نہیں مانی۔ اب بھی انسان بربریت پر سوشلزم کی فتح یقینی بنا کے حقیقی انسانی سماج کی تعمیر شروع کرے گا اور یہ سب ایک سوشلسٹ انقلاب کے سوا ناممکن ہے۔