پاکستان

فوج صرف جنگ کیلئے ہے

پرویز ہود بھائی

صدر ِپاکستان کے منصب پر براجمان رہنے والے جنرل ایوب خان ایک سادہ آدمی تھے۔ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کے بھی ایسے آسان حل پیش کرتے کہ کبھی کبھار انسان دنگ رہ جاتا۔ مثلاً وہ اپنی خود نوشت ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ کے صفحہ نمبر 101 پر طلبہ میں نظم و ضبط کے فقدان کی یہ وجہ بتاتے ہیں کہ اْن کی تعداد کے تناسب سے ملک میں عمارتیں، لیبارٹریز اور لائبریریاں موجود نہیں ہیں۔

وہ پھر اس مسئلے کایہ حل تجویز کرتے ہیں کہ اگر ایک انسٹرکٹر ہر روز آدھے گھنٹے کے لئے طلبہ کو اکٹھا کر کے انہیں لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے مصروف رکھے تو طلبہ کی نشو نما بہتر ہوگی اور اْن کے دماغوں سے شیطانی خناس نکل جائے گا۔

شیطانی اثرات رفع کرنے کوتعلیم دینا نہیں کہا جا سکتا اور کالجز یا یونیورسٹیز میں پی ٹی ماسٹرز بھیجنا بھی ایک فضول کام ہے البتہ یہ اعتراف کرتے ہوئے ایوب خان کی انکساری قابل ستائش ہے کہ وہ کوئی ہونہار طالبعلم نہ تھے اور نہ ہی ان میں درسی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی خاص رجحان تھا۔

1926ء میں ان کے والد، جو برطانوی فوج کے ایک رسالدار میجرتھے، نے ان کے رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ میں داخلے کے لئے فیس ادا کی۔ وہاں نظم و ضبط کی سخت پابندی تھی، جبکہ نئے آنے والے کیڈٹس اس کے عادی نہ تھے۔ اکیڈمی کی طرف سے مراعات یافتہ افسران کی روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک برطانوی سپاہی اردلی کے طور پرملا، جہاں نظم و ضبط کو فوقیت دی جاتی اور خیال کیا جاتا کہ محض جسمانی مشقوں کے ذریعے کیڈٹس کو باوقار اور با اعتماد شخصیت کا حامل بنایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ انہوں نے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی۔ مگر اپنے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی نے انہیں دنیا کا پہلا خود ساختہ فیلڈ مارشل بنا دیا۔ اسی خود اعتمادی نے انہیں اس سے پہلے 1958ء کی بغاوت پر بھی اکسایا جب انہوں نے صدر اسکندر مرزا کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور پھر ایک دہائی تک ملک کے حکمران رہے۔

ایک طرف جہاں پاکستان اور امریکہ کے مابین قربتیں بڑھیں۔ وہیں ایوب خان نے امریکی ہتھیاروں سے لیس ہوکر آپریشن جبرالٹر کا آغاز کر دیا۔ جس کے نتیجے میں 1965ء کی جنگ چھڑ گئی اور یوں متوقع نتائج کے حصول میں ناکامی کے بعدآپریشن جبرالٹر ختم کرنا پڑا۔

ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ دوریوں میں ایسا اضافہ ہوا جو پھر کم نہ ہو سکا۔ 1968ء میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے ایوب خان کی نام نہاد ترقی کی دہائی کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ایوب خان کو دیگر آمروں۔ یعنی یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف سے زیادہ مقبول سمجھا جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے برطانوی فوجی اکیڈمیوں نے ایوب خان جیسے باغی بہت کم تیار کئے ہیں۔ یقینی طور پر متعدد برطانوی افسران ایوب خان جیسی خود پسندی رکھتے ہوں گے مگر کیا وجہ ہے کہ برطانوی نظام میں فوجی بغاوت ناقابل تصورسمجھی جاتی ہے؟

کامیاب معاشرے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگوں میں بہادری کا مظاہرہ کرنے والے ضروری نہیں کہ صنعتوں، اداروں یا حکومتوں کو چلانے کے لئے بھی موزوں ٹھہریں لہٰذا برطانوی فوجی افسران (خواہ وہ حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ) کو ان کی مخصوص جنگی مہارت سے ہٹ کر کسی اور عہدے کی پیشکش نہیں کی جاتی۔ انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ایک فوجی جنگ میں تو مرد میدان ہو تا ہے۔ لیکن دیگر معاملات میں وہ ناکام ترین ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک لمحے کے لئے تصور کریں کہ برطانوی فوج ملک چلا رہی ہے یا چلانے میں اس کا بڑا کردار ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کے ماہر کی بجائے برٹش ایئرویز کا سربراہ رائل ایئر فورس کے کسی ریٹائرڈ ایئر مارشل کو لگا دیا جائے۔ تو کیا یہ ادارہ مقابلے کی دوڑ میں آگے نکل جائے گا؟

اسی طرح بریگزیٹ سے متعلق پالیسیوں کی پیچیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے برطانوی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل موزوں رہے گا۔ یا کیمبرج سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والا اقتصادی ماہر؟

کیا بجلی کا ادارہ چلانے کے لئے ایک ممتاز برقی انجینئرکو ڈھونڈنا چاہئے۔ یا برطانوی فوج کا کرنل یہ ذمہ داری بہتر نبھا سکے گا؟ اسی طرح کیا رائل نیوی کے ایک ایڈمرل (چاہے وہ حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ) کو شمالی سمندر کے تیل سے متعلق برطانیہ کے مفادات کے لئے ذمہ داری دینا بہتر ٹھہرے گا؟

اگر ایسا ہوتا تو نتائج ویسے ہی ناکامی کی صورت میں سامنے آتے جیسا کہ یہاں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، سپارکو، واپڈا، پی سی ایس آئی آر اور دیگربے شمار اداروں کے ساتھ ہوا ہے۔ ان میں اعلیٰ سطح سے لے کر نچلی سطح تک میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہی ہیں۔

فوجی ذہنیت میں کچھ غیر معمولی خصوصیات بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ جنگ کے آزمائشی حالات کا تقاضا ہے۔ فوج کمانڈ اور کنٹرول سے لے کرنقل و حمل اور میٹریل مینجمنٹ بروئے کار لانے تک کا شعبہ تشکیل دے۔ بہت سے فوجی انجینئرنگ اور طبی سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں جو قدرتی آفات یا انسانی ہاتھوں سے آئی تباہی کے وقت بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بیشتر ممالک میں قانون سازی کی گئی ہے کہ ہنگامی صورتحال یا جنگ کی صورت میں مسلح افواج سویلین قیادت کی مدد کو آئیں۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر مغربی دنیا کی طاقتور فوجیں فتح کا جشن منا رہی تھیں۔ پرجوش عوام نے ہیرو جرنیلوں پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔ یہ پرتپاک استقبال ان کا ذہن خراب کر سکتاتھا اور کسی غیر آئینی حرکت پر اکسا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ہیری ٹرومین کو جنرل ڈگلس میک آرتھر کوبرطرف کرنا پڑا۔ سیاسی امور کے ماہر سیموئل ہنٹنگٹن نے 1957ء میں سویلین کنٹرول کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ فوج کو پیشہ وارانہ مہارت دیتے ہوئے سکھانا چاہئے کہ اس کا کام پالیسی پر عمل درآمد ہے، پالیسی بنانا نہیں۔

جدید زمانے کی جنگیں تقاضا کرتی ہیں کہ فوجی اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں تیز طراراور زیادہ معلومات کے حامل ہوں تاہم ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل اْن لوگوں کا متبادل نہیں ہو سکتے جنہوں نے تعلیم، صنعت وتجارت اور دیگر تکنیکی میدانوں میں باقاعدہ عمریں لگاکر خصوصی مہارت حاصل کر رکھی ہو۔

پاکستان کے تمام اداروں میں قابلیت اور درست مقام پر درست افراد کی تعیناتی کی اشد ضرورت ہے۔ جب ریٹائرڈ افسران کو اداروں کا سربراہ مقرر کر دیا جاتا ہے تو وہ نظم و ضبط یا کچھ سطحی تبدیلیاں لانے کے علاوہ اور کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لہٰذا فوج کو اْسی کام پر توجہ دینی چاہئے جس میں وہ اچھے ہیں اور جس کا اسے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے یعنی حالت جنگ میں اپنی قابلیت منوانا، نہ کہ کاروبار کرنا یا فلمیں بنانا۔

بشکریہ: سپر لیڈ۔ ویب ایڈریس: thesiperlead.com

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔