راولا کوٹ (نامہ نگار) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ 24 اکتوبر کو پاکستان کے زیر انتظام ضلع پونچھ کے شہر راولاکوٹ سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس تک ایک پرامن آزادی مارچ کا انعقاد کر رہی ہے۔
اس مارچ کی قیادت جے کے ایل ایف کے چیئرمین سردار صغیر خان ایڈووکیٹ کریں گے۔ ان کے ہمراہ پارٹی کے سینئر ارکان، طلبہ تنظیم ایس ایل ایف کے چیئرمین اور دیگر عہدیدار بھی ہوں گے۔
اس مارچ کا اعلان پچھلے سال کیا گیا تھا لیکن کرونا بحران کی وجہ سے اس کو ملتوی کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب گلگت بلتستان کو بین الاقوامی، خصوصی طور پر چین کے دباؤ کی وجہ سے، پاکستان کا صوبہ بنانے کا منصوبہ سامنے آیا تو جے کے ایل ایف نے اپنے اس اعلان کردہ مارچ پر فوری طور پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے 24 اکتوبر کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی قیادت سردار صغیرخان ایڈووکیٹ کر رہے ہیں۔ یہ ایک ترقی پسند سیاسی جماعت ہے جو ریاست جموں کشمیر سے بیرونی افواج کے انخلا کے بعد ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر پر یقین رکھتی ہے۔
مجوزہ مارچ کے ذریعے مطالبہ کیا جائے گا کہ معاہدہ کراچی کو منسوخ کیا جائے، ایکٹ 74 کا مکمل خاتمہ کیا جائے جس کے بعد گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر پر مشتمل دو صوبوں پر ایک بااختیار حکومت اور آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
جے کے ایل ایف کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ خطہ عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ بن جائے گا۔
جے کے ایل ایف کا مطالبہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے وسائل پر عوام کا حق اور سرزمین پر عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ جے کے ایل ایف کے مطالبات میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ان کی جدوجہد میں ان کے ساتھ یکجہتی اور وہاں مقید تمام سیاسی قیدیوں کی غیرمشروط رہائی بھی شامل ہے۔ جے کے ایل ایف آزادی مارچ کے ذریعے گلگت بلتستان میں قید سیاسی رہنماؤں بابا جان، افتخار کربلائی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قید تنویر احمد کی رہائی کا بھی مطالبہ کرے گی۔
اس مارچ میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے بہت منظم اور بھرپور عوامی آگہی مہم چلائی گئی ہے۔ جے کے ایل ایف کے ترجمان عمر حیات کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نے پہلی دفعہ گراس روٹ لیول پر عوام کو اپنے ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کا عمل سر انجام دیا ہے جس کے بہت ہی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
عمر حیات کے مطابق پارٹی کے چیئرمین سردار صغیر خان اس مہم کا خود حصہ ہیں اور انھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی پسند جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کے علاوہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی جماعتوں کو بھی اس مارچ میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے، اس سلسلے میں انھوں نے راجہ فاروق حیدر، لطیف اکبر سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
عمر حیات کے بقول سول سوسائٹی، وکلا کی تنظیموں، صحافیوں، تاجران اور ٹراسپورٹ یونین سمیت ہر ممکن گروہ کو اس مارچ کا حصہ بنانے کی مہم چلائی گئی ہے۔
عمر حیات نے اس مارچ کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جے کے ایل ایف کی طرف سے انسانی حقوق کی تنظیموں کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام حکومتوں پر نظر رکھیں اور ان کو عوام کے پرامن سیاسی احتجاج کے حق کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں تاکہ اس مارچ کو ممکنہ طور پر سبوتاژ کرنے والی قوتوں کو روکا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پارٹی کے چیئرمین سردار صغیر خان نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور سینٹر عثمان خان کاکڑ کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین سے ملاقاتیں کر کے اس مارچ کے مقاصد کے بارے میں انہیں آگاہ کیا ہے اور ان کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔
جے کے ایل ایف نے تمام دیگر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو خطوط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ 24 اکتوبر کو پارلیمنٹ میں موجود ہوں تاکہ ان کو ایک یاداشت پیش کی جا سکے۔ سردار صغیر خان نے دو روز قبل راولپنڈی بار میں وکلا سے بھی خطاب کیا اور ان کو اس مارچ کے مقاصد اور تفصیلات سے آگاہ کیا۔
پارٹی ترجمان نے کہا ہے کہ اس وقت اس مارچ کی مہم آخری مراحل میں ہے اور ہم پاکستان کے محنت کش عوام اور ترقی پسند دوستوں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش کا حصہ بنیں گے، ریاست جموں کشمیر کے محنت کش عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے موجود ہوں گے اور حکومتوں کی طرف سے اس مارچ کو روکنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔