راولاکوٹ (جے کے این ایس ایف) جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی مرکزی قیادت نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان اورپاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی ایک سامراجی منصوبہ ہے۔ جس کا اس خطے کے غریب اور محنت کش عوام کی زندگیوں کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سامراجی اور تذویراتی مقاصد و مفادات کے تحفظ کیلئے اس علاقے کی قانونی اور آئینی حیثیت تبدیل کرنے کو حقوق کا نام دے کر حکمران طبقات عوام کو ایک مرتبہ پھر الجھا رہے ہیں۔ اس منصوبے میں گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکمران اشرافیہ بھی سامراجی طاقتوں کے آلہ کار اور ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واویلا مچایا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کا صوبہ بننا چاہتے ہیں۔ درحقیقت گلگت بلتستان کے عوام اپنے وسائل پر اختیار اوراجارہ چاہتے ہیں، غربت، بیروزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور پسماندگی کا خاتمہ اور سامراجی غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کر کے صوبوں کو دیئے گئے اختیارات بھی واپس لینے کے درپے ہیں، ایسے میں اسی بائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو عارضی و عبوری صوبے بناکر حقوق کیسے دیئے جا سکتے ہیں۔ سامراجی سرمایہ کاری اور تجارتی راستوں کو تحفظ دینے کیلئے اس خطے کی قومی اور طبقاتی محرومی کو سامراجی بنیادوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان، سندھ اور دیگر محکوم قومیتوں پر قومی و طبقاتی جبر کا اضافہ کر کے، ان کے وسائل پر قبضے کرتے ہوئے چین کی لوٹ مار کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ اور ہر اٹھنے والی آواز کو لاپتہ اور گمشدہ کرنے کا عمل جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں بابا جان اور دیگر اسیران کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے ہے جو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ ایسے میں گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ بھی یہی کھلواڑ کیا جانا مقصود ہے۔ جسے آئینی اور قانونی لبادے میں لپیٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایکٹ 74ء میں ہونے والی تیرہ ترامیم اور گلگت بلتستان کیلئے جاری ہونے والے پے در پے صدارتی حکم ناموں میں حقوق دینے کی بجائے قومی و طبقاتی جبر کو مزید گہرا کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں حکمران طبقات محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں کو کوئی حقوق نہیں دے سکتے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ قومی جمہوری انقلاب کے فرائض پورے کرتے ہوئے تمام قومیتوں کو ہم آہنگ ترقی سے سرفراز کرتے ہوئے جدید قومی ریاست کی بنیادی رکھی جا سکتی ہے۔ اس سب کیلئے اس نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
ان خیالات کا اظہار این ایس ایف کے مرکزی صدر ابرار لطیف، سابق مرکزی صدر بشارت علی خان، سابق سیکرٹری جنرل خلیل بابر، چیف آرگنائزر تیمور سلیم، سابق چیف آرگنائزر تنویر انور، ایڈیٹر عزم التمش تصدق، سیکرٹری مالیات ارسلان شانی، ضلعی چیئرمین سبحان عبدالمالک، مرکزی رہنما زبیر لطیف، بدر رفیق، سہیل اسماعیل اور دیگر مقررین نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جے کے این ایس ایف کے قائدین کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن یہ سمجھتی ہے کہ جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے جس کو متنازعہ رکھنے میں نہ صرف پاک و ہند کے حکمران طبقات بلکہ عالمی سامراج اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی ادارے ایک ہی جیسے مجرم ہیں۔ جبکہ اس عمل میں مقامی حکمران اشرافیہ نے سامراجی آقاؤں کے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا اس خطے کی حقیقی آزادی اور تمام مصائب و آلام سے نجات کے ضامن پھر اس خطے کے محنت کش اور نوجوان ہیں۔ جن کی طبقاتی بنیادوں پر نہ صرف جموں کشمیر و گلگت بلتستان میں جڑأت ناگزیر ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے طبقاتی بنیادوں پر اس جدوجہد کو جوڑ کر اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑے بغیر نجات کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن جدید سائنسی سوشلزم کے نظریات سے نوجوانوں کو لیس کرتے ہوئے طلبہ، مزدور اتحاد کی بنیاد پر اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اور یہ سمجھتی ہے کہ جب تک اس خطے سے سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ قومی جبر، غلامی اور استحصال سمیت تمام تر بنیادی مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔