لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں امن عمل کے مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر افغانستان کیلئے بین الاقوامی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی کے اعلانات کا امکان ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان طاقت حاصل کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم سے متعلق منصوبہ جات کے مستقبل کو خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ امدادی رقم کا کرپشن اور بد عنوانی کی نظرہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں ماہ نومبر کی 23 اور 24 تاریخ کو جنیوا میں بین الاقوامی ڈونرز کا اجتماع ہونے جا رہا ہے۔ تاہم بین الاقوامی ڈونرز کے خدشات سے متعلق طالبان نے تا حال کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ طالبان نمائندوں کو اس کانفرنس میں مدعو کیا جائیگا یا نہیں۔
رائٹرز کے مطابق بین الاقوامی تجزیہ کار اینڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ مستقبل کی کوئی بھی ریاست بین الاقوامی امداد پر اتنا ہی انحصار کرے گی جتنا موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ رواں سال کرونا وائرس وبا کے اثرات کے بعد افغانستان کے سرکاری محصولات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بیروزگاری اور غربت میں ڈرامائی اضافے کا امکان ہے۔
رائٹرز کے ذرائع کے مطابق افغانستان کو سب سے بڑی امداد دینے والا ملک امریکہ اپنی امداد میں نصف کمی کر سکتا ہے جبکہ نیٹو کے دوسرے ممبران جیسے برطانیہ اور فرانس بھی وعدوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا امداد میں تیس فیصد کٹوتی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
چار سال قبل بلجیم کے شہر برسلز میں ہونے والی آخری ڈونر کانفرنس میں ڈونرز نے 2017-20ء کے درمیان افغانستان کی امداد کیلئے 15.2 ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا تھا، جو کہ فی سال 3.8 ارب ڈالر بنتی ہے۔
افغانستان کی وزارت خزانہ کے ترجمان کو امداد میں کمی کی توقع نہیں ہے۔ تاہم فن لینڈ کے وزیر خارجہ کے مطابق ایک بڑی تبدیلی ہر چار سال کی بجائے سالانہ فنڈز پر نظر ثانی کرنے کی صورت ہو گی۔ اس کے علاوہ بد عنوانی سے متعلق ڈونرز کے خدشات کو دور کرنے اور انسانی حقوق سے متعلق امور پر ہونیوالی پیش رفت کو محفوظ رکھنے کیلئے سخت شرائط عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ ڈونر برادری 19 سالوں کی کامیابیوں سے محروم نہیں ہونا چاہتی، جس کیلئے سالانہ جائزہ ضروری ہے۔