اسلام آباد (جدوجہد رپورٹ) ترقی پسند قوم پرست جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ کی پریس کانفرنس منسوخ کر دی گئی۔ یہ پریس کانفرنس نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جمعرات کے روز دو بجے ہونا تھی، جس کےلئے پریس کلب کے سیکرٹری انور رضا کی طرف سے تمام اخبارات کے اسائنمنٹ ایڈیٹرز کودعوت نامہ بھی ارسال کیا گیا تھا، لیکن پریس کانفرنس سے پینتالیس منٹ قبل سینئر وائس چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ راجہ مظہر اقبال کو مطلع کیا گیا کہ کمشنر اسلام آباد کی ہدایت پر کرونا وبا کے پھیلاﺅ کے پیش نظر پریس کلب میں تمام تر سرگرمیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
کشمیری صحافی دانش ارشاد سے بات کرتے ہوئے صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے کہا کہ انکی معلومات کے مطابق پریس کانفرنس چیئرمین لبریشن فرنٹ نے خود ہی منسوخ کی ہے۔ تاہم مکمل تفصیلات پریس کلب سے لی جا سکتی ہیں۔ پریس کلب انتظامیہ کا کہنا تھاکہ آج پریس کلب میں دو تقاریب ہونا تھیں لیکن کمشنر اسلام آباد کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کےلئے ایس او پیز جاری کرتے ہوئے پریس کلب میں تمام تقاریب کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی تھی جس کی وجہ سے دونوں تقاریب منسوخ کر دی گئی ہیں۔ دوسری تقریب کو پریس کلب کا اپنا ایونٹ بتایا گیا ہے لیکن کیا ایونٹ تھا یہ تفصیل نہیں بتائی گئی۔
پریس کلب کے رکن صحافیوں کا کہنا ہے کہ پریس کلب میں آج کے دن کوئی تقریب یا پریس کانفرنس نہیں ہوئی لیکن سرگرمیاں معمول کے مطابق چل رہی ہیں، پریس کلب میں صحافی معمول کے مطابق آتے ہیں اور کیفے ٹیریا بھی معمول کے مطابق آباد رہا۔
دوسری جانب چیئرمین لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان نے ”روزنامہ جدوجہد“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس او پیز دراصل ایک بہانہ تھا، ہمیں پریس کلب کے اندر جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا ”اس سے قبل ہم نے لانگ مارچ کے ذریعے اپنا پیغام پاکستان کے محنت کش اور مظلوم عوام تک پہنچانے کی کوشش کی تھی جسے ریاستی جبر کے ذریعے سبوتاژ کر دیا گیا تھا۔ اب جبکہ ہم بذریعہ پریس کانفرنس گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے ہونیوالے ممکنہ فیصلوں سے متعلق بات کرنا چاہ رہے تھے تو ہمارے لئے یہ راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے“۔
دریں اثنا ترجمان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے پریس کانفرنس کا متن جاری کیا ہے۔ جس کے مطابق لبریشن فرنٹ کا موقف تھا کہ ”حکومت پاکستان کی طرف سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو تقسیم کر کے پاکستان میں ضم کرنے کے اقدامات بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019ءکے اقدامات کی توثیق اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارتی اور پاکستانی حکومتیں در پردہ عالمی بالادست قوتوں کی آشیر باد سے مسئلہ جموں کشمیر کو دفن کرنے اور ریاست جموں کشمیر کے عوام کی 73 سالہ جدوجہد اور لازوال قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں کشمیر کے عوام کی اجتماعی رائے اور عالمی قوانین کے برخلاف ریاست جموں کشمیر کو مستقل بنیادوں پر تقسیم کرنے کے ناپاک منصوبے پر عمل پیرا ہو چکی ہے۔ ہندوستان روز اﺅل سے ہی کشمیریوں کے حق آزادی اور حق خود ارادیت کا کھلا دشمن رہا لیکن پاکستان کی حکومتیں بظاہر ریاست جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتی رہی ہیں جس کی پاداش میں پاکستان کے عوام کا بھی بے پناہ استحصال ہوتا رہا ہے۔ اب 73 سال بعد حکومت پاکستان کا اپنے مو¿قف سے راہ فرار اختیار کرنا ریاست جموں کشمیر کے عوام سے بے وفائی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام سے بھی دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ اس بے وفائی اور دھوکہ دہی کے خلاف ہم نے 24 اکتوبر 2020ءکو آزادی مارچ کا آغاز کیا جس کا مقصد پاکستان کے مظلوم، استحصال زدہ عوام اور محکوم قومیتوں تک ریاست جموں کشمیر کے عوام کے احساسات و جذبات کو ایک یادداشت کی صورت میں بذریعہ سپیکر/چیئرمین سینٹ/ڈپٹی سپیکر/ڈپٹی چیئرمین سینٹ پہنچانا تھا لیکن ہمارے اس پرامن مارچ سے خوفزدہ ہو کر ہمارے مارچ کو راستے میں روکا گیا اور دو دن کے سخت محاصرے کے بعد مجھ سمیت ہمارے 53 ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پاکستان کے مظلوم اور استحصال زدہ عوام اور محکوم قومیتیں ہماری قدرتی اتحادی اور دوست ہیں ان کی اور ہماری جنگ اسی استحصالی طبقہ سے ہے جو ان کی مظلومیت اور ہماری محکومیت کا ذمہ دار ہے۔
اس لئے ہم ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کے درپے پاکستا ن کے حکمران طبقات کو اس ناپاک، غیر انسانی اور غیر جمہوری عمل سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ریاست جموں کشمیر کے عوام کے حق آزادی اور غیر مشروط و غیر محدود حق خود ارایت کے حصول کیلئے ریاست جموں کشمیر کے عوام کا دست و بازو بنیں۔ ہم تا تصفیہ مسئلہ جموں کشمیر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق و اختیار کیلئے ایسا قابل عمل اور آسان حل تجویز کر رہے ہیں جس سے عالمی سطح پر مسئلہ جموں کشمیر متاثر کئے بغیر ریاست کے پاکستانی زیر انتظام حصہ کی ہر دو اکائیوں کو ان کے وسائل پر اجارہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے حقوق و اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کو باہمی طور پر جدا کرنے والے بد نام زمانہ معاہدہ کراچی کو منسوخ کیا جائے اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان میں نافذ العمل نام نہاد آزاد جموں کشمیر عبوری ایکٹ 1974ء و نام نہادگلگت بلتستان ایمپاورمنٹ و سیلف رول آرڈی نینس 2009ءکو ختم کرتے ہوئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان کو باہم ملا کر اندرونی خود مختاری کے حامل دوصوبوں پر مشتمل پوری ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کی نمائندہ جمہوری، انقلابی حکومت (جو یہاں کے عوام کو روزگار، تعلیم و صحت کی سہولیات کی بلاتخصیص فراہمی کو یقینی بنا سکے اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر و لداخ کی بھارتی جبر و استبداد اور غلامی سے نجات کیلئے آزادی کی تحریک کو علاقائی اور عالمی سطح پر منظم کر کے کامیابی کی منزل تک پہنچا سکے) و آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے طرفین میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو فی الفور بحال کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
گلگت بلتستان میں قید بابا جان، افتخار کربلائی اور دیگر سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کیاجائے اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں سے نیشنل ایکشن پلان کا خاتمہ عمل میں لایا جائے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر گلگت بلتستان کے وسائل اور زرمبادلہ پر مقامی عوام کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے اور دونوں خطوں میں سوات، فاٹا اور وانا کی طرز پر مقامی پراکسی تنظیمیں بنوا کر یہاں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے بصورت دیگر اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔ ہم پاکستان کی مظلوم، محکوم اور استحصال زدہ عوام کیوجہ سے بہت سی چیزوں میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں لیکن اگر حکومت پاکستان نے بھارتی حکومت کی روش پر چلنا ترک نہ کیا تو ہمیں مجبوراً سخت اقدامات اٹھانے پڑیں گے جو کسی کیلئے بھی فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ ریاست جموں کشمیر اور گلگت بلتستان ایک ناقابل تقسیم وحدت و اکائی ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ ریاست جموں کشمیر کے عوام اپنے پیدائشی، عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور موعود حق، حق خود ارادیت کے ذریعے کریں گے۔ ریاست کے کسی بھی حصہ کو نہ تو کسی دوسرے ملک میں مدغم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی، اخلاقی اور آئینی حیثیت ہو گی۔ ایسا کوئی بھی عمل جو ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان کی تقسیم پر منتج ہو وہ نا صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس کے خلاف بھر پور مزاحمت بھی کی جائے۔ ہم سیاسی اور سفارتی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جنہیں ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اگر بھارت و پاکستان اور دنیا نے ہماری پرامن سیاسی و سفارتی جدوجہد کو تسلیم نہ کیا اور عوامی رائے کے مغائر ہم پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی تو دنیا بھر کی دیگر اقوام کی طرح عوامی مسلح جدوجہدکرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہمارا حق ہے۔ ہم بھارت، پاکستان اور دنیا کو مسئلہ جموں کشمیر کا پرامن حل نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کا اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم جنوبی ایشیا کے عوام کو چند ایک مقتدر قوتوں کی ہوس ملک گیری اور نام نہاد انا کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں۔
تا تصفیہ مسئلہ جموں کشمیر گلگت بلتستان، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر گلگت بلتستان کے لئے ہماری طرف سے تجویز کردہ حل ہماری امن پسندی کی واضح دلیل ہے کیونکہ یہ وہ واحد حل جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ گلگت بلتستان کو افغانستان کی طرح ساو¿تھ ایشین ریجن کا عالمی پراکسی جنگ کا میدان جنگ بننے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ مجوزہ حل چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرتے ہوئے گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی محرومیوں کے خاتمے کا بھی باعث بنے گا اور خطہ کے عوام کیلئے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔ عوام ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان کے حصے بخرے کرنے اور ریاست کی دائمی بنیادوں پر تقسیم کے ناپاک عمل کے خلاف کمر بستہ ہوں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی اور اپنے مطالبات کے حق میں اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھے گا۔ مناسب وقت پر ہم ایک بار پھر مناسب تیاری اور حکمت عملی کے ساتھ فیصلہ کن آزادی مارچ کریں گے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکن، ہمدرد اور غیرت مند عوام خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں“۔