دنیا

متحدہ عرب امارات کا ثقافتی گلاسناسٹ

پرویز امیر علی ہود بھائی

بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کی آزادی، شراب پر پابندی کا خاتمہ، غیرت کے نام پر قتل کو دیگر جرائم کی طرح جرم قرار دینا۔ یہ سرکاری فرمان متحدہ عرب امارات ایسے ملک میں دو ہفتے قبل جاری ہوا جہاں سیاسی و سماجی معاملات شریعت کے تابع ہیں۔ یہ نئے قوانین دوسرے ملک سے آئے لوگوں پر (88 فیصد) بھی لاگو ہوں گے اور مقامی (12 فیصد) لوگوں پر بھی جن کی اکثریت سنی مسلمان ہے۔

اخلاقیات کا تو بظاہر تیا پانچہ ہو گیا ہے۔ پدرسری صحرائی ثقافت میں جہاں مقامی خواتین نقاب اوڑھتی ہیں، ایک ایسا کام ہوا ہے جس بارے کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود نہ تو کسی احتجاج کی خبر سننے کو ملی ہے نہ ہی پڑوسی ممالک نے کوئی اعتراض کیا ہے۔ دیگر خلیجی ممالک…حتیٰ کہ خلیجی ممالک کے اہم حریف ترکی…نے کسی قسم کا رد عمل جاری نہیں کیا۔ سعودی عرب جو کبھی سنی رجعت پسندی کا گڑھ تھا، اب خود اسی راستے پر گامزن ہے۔

ملائیت زدہ ایران بھی نیم سرکاری طور پر اعتراف کرتا ہے کہ ملک میں شراب نوشی کا مسئلہ ہے اور بظاہر ایران بھی اس سے سمجھوتہ کر چکا ہے البتہ تہران میں جگہ جگہ یہ تنبیہ دکھائی دیتی ہے کہ شراب پی کر ڈرائیونگ مت کریں۔

یہ ثقافتی آزادانہ روی نہ تو عرب بہار کا نتیجہ ہے نہ ہی ان ممالک میں حکمرانوں کو کسی عوامی تحریک نے مجبور کیا۔ جب تک کچھ ہوتا نہیں، ملاں اور سلطان تخت نشیں رہیں گے۔ اوپر سے مسلط کی جا رہی بے شمار تبدیلیوں کا مقصد یہ ہے کہ عرب ممالک کو مغربی سیاحوں اور سرمایہ کاری کے لئے پر کشش بنایا جائے۔ اسرائیل سے تعلقات کی حالیہ استواری بھی ایک عنصر ہے۔

ثقافتی آزادیوں بارے یہ نئے قوانین سیاسی تبدیلیوں سے کہیں زیادہ ان معاشروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان تبدیلیوں سے کئی سوال جنم لیں گے۔ مثلاً: گناہ کیا ہے اور مناسب عمل کیا ہے یا اسلام میں کس چیز کی اجازت ہے اور کیا ممنوع ہے؟ کون سی اقدار تا ابد ہیں اور کون سی اقدار وقت کے ساتھ ساتھ بدل سکتی ہیں؟

صحیح غلط کی تعریف تو ہر جگہ ہی پرکھی اور پلٹی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پوری مسلم دنیا میں اب حلال قرار پا چکا ہے، حتیٰ کہ پاکستان میں، جسے مسلم دنیا کے رجعتی ترین ممالک میں شامل کیا جا سکتا ہے: شام کے وقت سارا خاندان بیٹھک میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے۔

باریش حضرات اور الہدیٰ کی خواتین بھی سیلفی لے کر واٹس ایپ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے نسبتاً بزرگ شہریوں کو البتہ یاد ہو گا کہ فوٹو گرافی کو کیسے غیر اسلامی قرار دیا جاتا تھا جبکہ ٹیلی ویژن کو ’شیطانی آلہ‘ کہا جاتا تھا۔

اسلام کے ابتدائی فقیہان کے مطابق کسی بھی جاندار کی شبیہہ بنانا قطعاً ممنوع تھا۔ علما اور مولوی حضرات کا عقیدہ تھا کہ کسی جاندار کی تخلیق اور عکاسی محض خدا کے ہاتھ میں ہے، آرٹسٹوں اور پینٹرز کو اس سے باز رہنا چاہئے۔ مسلمان بھلے تاج محل یا مسجد اقصیٰ کے گنبد پر جتنا چاہے ناز کریں، اسلامی آرٹ بہر حال خطاطی تک ہی محدود تھا۔

نقش نگاری کی تو اس قدر ممانعت تھی اور اسے اس سنجیدگی سے لیا جاتا تھا کہ سر سید احمد خان جیسے لبرل اور سائنسی سوچ رکھنے والے انسان نے بھی تصویر اتارنے کی مخالفت کی، گو بعد میں انہوں نے موقف میں تھوڑی لچک پیدا کر لی تھی۔ افغان طالبان کے بانی ملا عمر نے عمر بھر سمجھوتہ نہیں کیا لہٰذا ان کی کوئی مصدقہ تصویر موجود نہیں۔

2005ء میں جب پاکستان زلزلے کا شکار ہوا تو اس کا ذمہ دار ٹیلی ویژن دیکھنا قرار پایا۔ زلزلے کے دو دن بعد کاغان کے مولوی حضرات نے باقاعدہ ٹیلی ویژن سیٹ توڑنے کی ایک عوامی تقریب منعقد کی۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے بہرحال مولوی حضرات کو بھی قائل کر لیا کہ وہ ٹیلی ویژن کا بائیکاٹ کر کے ایک موقع گنوا رہے ہیں۔ یوں مذہبی چینلوں کا ایک دور شروع ہوا۔ پہلے پہل تو ان چینلوں پر آڈیو ریکارڈنگ چلائی جاتی اور سکرین پر تیرتے ہوئے بادل اور آسمان ہی نظر آتے مگر جلد ہی جیتے جاگتے انسان بھی نظر آنے لگے۔ اس کے بعد ٹی وی پر کئے جانے والے وعظ اور مذہبی اجتماعات مقبول ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹیلی ویژن اسکرین سے مقبولیت حاصل کرنے والے مولوی حضرات کے اب لاکھوں کی تعداد میں معتقدین ہیں۔

جب ایک ایسے ہی میگا سٹار سے ماضی میں ٹیلی ویژن کی مخالفت بارے سوال کیا گیا تو ان کا جواب مشکل پسندی کو نمونہ تھا۔ فرمانے لگے کہ اسلام عکس بندی اور نقش نگاری کے خلاف ہے نہ کہ ویڈیوز کے۔

تبدیلیوں کو اپنانا صرف پاکستان یا اسلام ہی کا خاصہ نہیں۔ سوچ اور عمل کی بنیادی کایا پلٹ ہر جگہ سامنے آئی۔ غلامی کی ہی مثال لیجئے۔ پندرہویں صدی سے یورپی کلونیل ازم نے افریقہ خالی کر کے رکھ دیا۔ یورپ میں روشن خیالی کی تحریک شروع ہونے کے بعد غلامی دم توڑنے لگی۔ تاج برطانیہ نے 1833ء میں غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ امریکہ کو غلامی ختم کرنے کے لئے مزید 32 سال لگے اور اس کے لئے ایک جنگ بھی لڑنا پڑی۔

مسلمان ملکوں میں غلامی کے خاتمے کو کہیں زیادہ عرصہ لگا۔ قرآن میں چونکہ غلامی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے مگر اسے ممنوع قرار نہیں دیا گیا اس لئے تیرہ صدیوں تک کسی مذہبی ادارے نے غلامی کے خلاف یہ فتویٰ نہیں دیا کہ غلامی گناہ ہے یا غیر قانونی ہے۔

1909ء میں مغربی تعلیمات سے متاثر ینگ ٹرکس نے، جن کی قیادت کمال اتاترک کر رہے تھے، سلطان عبدالحمید ثانی کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ذاتی غلام آزاد کریں۔ جب کمال اتا ترک نے عثمانی خلافت کا خاتمہ کیا تو جب ہی غلامی کا خاتمہ ہو سکا۔ لیگ آف نیشنز نے غلامی کے خاتمے کا جو کنونشن 1926ء میں بنایا تھا، ترکی نے 1933ء میں اس کی توثیق کی۔ گو ترکی نے مغرب کی ترغیب پر ایسا کیا لیکن یہ بہرحال ایک اچھا اقدام تھا۔

متحدہ عرب امارات نے جو تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں، اچھی ہیں یا بری، مغرب کی ترغیب پر ہی کرائی ہیں۔ وہاں کے حکمران دنیا اور اپنے شہریوں کے سامنے ان تبدیلیوں کا کیا جواز پیش کریں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ممکن ہے کوئی جواز بھی پیش نہ کیا جائے کیونکہ متحدہ عرب امارات ایک خود مختار ملک ہے جبکہ ملک پر حکومت کرنے والاشاہی خاندان کسی کو جواب دہ نہیں۔ وہاں کے شہری کے پاس تو کوئی آواز ہے نہیں۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات یہ بھی کر سکتا ہے کہ ان تبدیلیوں کی فرمانبردار مفتیوں اور شیخ السلام سے توثیق کرا لے۔ مسلمان حکمرانوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ کس طرح وفادار مولویوں سے بینکاری نظام سے جڑے سودی نظام کو حلال قرار دلوانا ہے۔ متحدہ عرب امارات بیرون ملک کئی سلفی گروہوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جامعہ الاظہر پر بھی متحدہ عرب امارات کا خاصا اثر و رسوخ موجود ہے۔ کسی ممکنہ تنقید سے بچنے کے لئے یہ وسیع تعلقات کام آ سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے حکمران یہ کوشش بھی کر سکتے ہیں کہ ایک بے دھڑک موقف اپنائیں۔ مغرب نے اپنی ارتقا پذیر اقدار کے باوجود ترقی کی۔ کل تک جو غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا، اب عام سی بات ہے۔

ساٹھ کی دہائی تک یورپ اور امریکہ میں بھی بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنا عام طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دھیرے دھیرے مذہبی مخالفت کم ہوتی گئی اور اب ان سب کے رویوں میں نرمی آئی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے حکمران یہ موقف بھی لے سکتے ہیں کہ اگر اسلام کی مناسب تشریح کی جائے تو یہ ممکن ہے۔ جس طرح بچوں کی شادی، بیوہ سے شادی یا ایک سے زائد شادیوں پر ایک زبردست بحث موجود ہے، اس سوال پر بھی زبردست مناظرہ ہو گا لیکن بھلے آپ کو اچھا لگے یا برا، وقت کا تیر ہمیشہ ناک کی سیدھ میں جاتا ہے۔

پوری مسلم دنیا میں اس وقت جو ثقافتی تبدیلیاں اور سماجی اقدار میں آزاد روی آ رہی ہے، پاکستان اس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ آخر ایک وہ بھی تو وقت تھا کہ پاکستان مسلم دنیا کی قیادت کرنا چاہتا تھا۔ الجھاؤ کا شکار پاکستان، جسے گلوبل طاقتیں ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل رہی ہیں، ماضی کی طرف نظریں جمائے یہ دعائیں مانگ رہا ہے کہ گزرا ہوا زمانہ لوٹ کر آ جائے۔

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔