سرمد خواجہ
26 نومبر کو وزیر اعظم نے اپنے ’کرونی‘ سرمایہ داروں سے ملاقات کی۔ ان میں شامل تھے چیراٹ سیمنٹ کے اعظم فاروق، گل احمد ٹیکسٹائل کے بشیر علی، لکی سیمنٹ کے علی تببا، ہونڈا ایٹلس کے ثاقب شیرازی، فاطمہ فرٹیلائزر کے فواد مختار، عارف حبیب گروپ کے عارف حبیب اور اینگرو کارپوریشن کے حسین داؤد۔
وزیر اعظم نے کورونیوں سے کہا ملک کی ترقی آپ جیسے بزنس مینوں کی ترقی کے ساتھ منسلک ہے، اس لئے میری حکومت کا فرض ہے آپ کو ہر قسم کی سہولت دینا۔ آپ کی تجویزیں ہم نے حکومتی پالیسی میں شامل کی ہیں اور ان پالیسیوں کے مثبت نتائج سب کے سامنے ہیں۔
ایک نتیجہ ہے اگلے ہی دن سٹیل مل کے 4,500 مزدوروں کی برترفی۔ ایک اور نتیجہ ہے خان کے کرونیوں کے منافعوں کا آسمان سے باتیں کرنا۔ ایک سال میں (2019ء) خان کے ان 7 کرونیوں کی کمپنیوں نے 5,241 کروڑروپے منافع بنایا۔
یہ منافع جولائی تا دسمبر 2020ء پی ٹی آئی کے کفالت پروگرام میں جو رقم بانٹی جائے گی اس سے 81 کروڑ روپے زیادہ ہے۔ کفالت پروگرام فیز 1 کو پی ٹی آئی کے روایتی پراپیگنڈے کے ساتھ پرائم منسٹر نے 26 نومبر کو ہی اسلام آ باد میں شروع کیا۔ اس پروگرام پرجو خرچہ ہو گا اس کا خان کے کرونیوں کے منافع سے موازنہ کرنے سے یہ پراپیگنڈا بے نقاب ہو جاتا ہے۔
اس سے پی ٹی آئی کی ترجیہات کا پتہ چلتاہے: 43 لاکھ غریب عورتوں کو 6 مہینے کے لئے اتنے پیسے دیئے جائیں گے جو خان کے 7 کرونیوں کے سالانہ منافع سے بھی کم ہیں۔
حکومتی پالیسیوں کا ایک اور نتیجہ ہے پی ٹی آئی حکومت کے 2 سال کے دوران مزدوروں کی کم سے کم اجرت 15,000 روپے منجمد رکھنا جبکہ چیزوں کی قیمتیں سالانہ دس فیصد بڑھ رہی ہیں چنانچہ 2 سال میں مزدورں کے معیار زندگی میں 20 فیصد کمی ہو چکی ہے۔
مزدورں کی اجرت سرمایہ دار کے کل خرچے کا تقریباً تیسرا حصہ ہوتا ہے۔ منافع کی ہوس سرمایہ دار کو مجبور کرتی ہے کہ مزدورں کی اجرت کو کم سے کم کرے۔ یہی کوشش تو پی ٹی آئی حکومت کی بھی ہے۔
مزدوروں کو بیروزگار کرنے اور ان کی اجرت کو کم کرنے کو حکومت کہتی ہے ملکی اداروں اور برآمدات کی مسابقت کو بڑھانے کی پالیسی۔
ہزاروں مزدور برطرف ہونے سے اور بیروزگاری عام ہونے سے مزدورں کی اجرت میں تو اور بھی کمی ہو گی۔ حکومت کے مطابق اس طرح بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری برآمدات کی مسابقت بڑھے گی، برآمدات میں اضافہ ہو گا اور کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس اور زیادہ ہو گا۔
وزیر اعظم کہتے ہیں ان کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے معیشت کو، جس کو چوروں نے لوٹ کر کھوکھلا کر دیا تھا، درست کر دیا ہے۔
سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس اوپر جا رہا ہے، تعمیراتی سیکٹر میں تیزی ہے، چنانچہ آئندہ سا ل ترقی کا سال ہو گا۔ خوشحالی کا سال۔ دولت بنانے کاسال۔
وزیرا عظم کے وعدوں اورباتوں پر اب کم ہی لوگ یقین کرتے ہیں لیکن مڈل کلاس کے کچھ لوگ اب بھی آنکھیں بند کر کے پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ پی ٹی آئی کا پراپیگنڈا کتنا موثر ہے اور کتنی ضرورت ہے اسے بے نقاب کرنے کی۔
ایک بات کو ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا، اخبار اور واٹس ایپ پر اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ پراپیگنڈا کرنے والے کو بھی بات پر یقین ہو جاتا ہے۔ آجکل یہ بات ہے کہ معیشت ٹھیک ہو گئی ہے اور خوشحالی کا دور شروع ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت مسلط ہوئی معیشت کی ترقی کی رفتار میں نہایت کمی ہوئی ہے۔ فیڈرل بیورو آف سٹیٹسٹکس حکومتی ادارہ ہے جو ملکی پیداوار کی مالی قیمت کا پیمانہ لگاتا ہے۔ اس پیمانے کو جی ڈی پی کہتے ہیں۔ جی ڈی پی میں اضافہ ہونا ملکی ترقی کی علامت ہے۔ ہمارے ملک میں جی ڈی پی کو کم از کم 2.5 فی صد سالانہ بڑھنا چاہیے یعنی آبادی کے بڑھنے کی رفتار سے کچھ زیادہ تاکہ فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا رہے۔
بیورو کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں جی ڈی پی میں ایک فی صد سے کم اضافہ ہوا۔ دوسرے سال یہ اضافہ 0.5 فیصد تھا۔ اس کے بر عکس پی ٹی آئی حکومت سے پہلے ’چوروں‘ کی حکومت کے دوران ملکی پیداوار میں 5 فیصدسے زیادہ سالانہ اضافہ ہو رہا تھا۔ سٹاک ایکسچینج کے اوپر جانے کے باوجود)اس کا کیا مطلب ہے ہم جدوجہد میں پہلے ذکر کر چکے ہیں (، تعمیراتی سیکٹر)جس کا جی ڈی پی میں 3 فی صد سے بھی کم حصہ ہے(میں تیزی کے باوجود ملکی پیداوار میں رواں سال میں آئی ایم ایف کے مطابق جی ڈی پی میں 2 فیصد کمی ہو گی۔ اس کا مطلب ہے اور زیادہ بیروزگاری اور زیادہ غربت۔ مزدوروں کے لئے مزید مشکلات۔
یقیناً پی ٹی آئی کی حکومت کہے گی اس کی وجہ چور ہیں جن کو وہ این آر او نہیں دیں گے، وغیرہ وغیرہ لیکن اصل وجہ اس کی غلط، مزدور مخالف، خان کے کرونیوں اور امیروں کو اور امیر کرنے کی پالیسی ہے۔ یہ پالیسی نئی نہیں۔ 60 سال پہلے ایسی ہی پالیسی پر ایوب خان نے بھی عمل کیا تھا جس کا نتیجہ ہمارے عظیم شاعر حبیب جالب نے عمدہ بیان کیا ہے:
بیس گھرانے ہیں آباد
اور باقی کے ہیں لاچار
پی ٹی آئی کی پالیسی کا بھی یہی نتیجہ ہو گا۔ بیروزگاری، بھوک اور غربت کو مزدوروں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے ملکی برآمداد کی مسابقت کو بڑھانے کی پالیسی کو مزدور پھر ناکام کریں گے۔ معقول اجرت کی خاطر مزدوروں نے پہلے بھی جدوجہد کی اب بھی کرنی ہو گی۔ 60 سال پہلے خان کی طرح اس خان کی بھی چھٹی کرنی ہو گی۔ اس کے لئے کرونیوں، امیروں اور ان کی حکومت کے محاذ کے خلاف مزدورں کی تنظیم سازی اور محاذ بنانا ضروری ہے۔
Sarmad Khawaja
سرمد خواجہ نے 17 سال آئی ایم ایف میں کام کیا۔ اس سے پہلے 4 سال ہالینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز سے وابستہ رہے۔ ناروے میں ویزیٹنگ پروفیسر تھے اور ہاورڈ یونیورسٹی میں فلبرائٹ پوسٹ ڈاکٹرل فیلو۔ 2010ء سے جنوبی پنجاب میں مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر 7 سکول بنا ئے ہیں جہاں 2500 بچے پڑھ رہے ہیں اور ان کے ساتھ فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔ بچوں کی کتاب ’دنیا کا محیط‘ لکھی ہے اوراس پر راک آپیرا ’نواں سجھ‘ تیار کر رہے ہیں۔ اپنے والد خواجہ مسعود کے مضامین کی کتا ب ’درس ہاے زندگی‘ اور پردادا الف دین نفیس کی تین جلد وں والی کتاب ’اسلام اور رواداری‘ بھی چھاپی ہے۔ دی نیوز کے لئے مضامین لکھتے رہے ہیں اور اب جدوجہد کے لئے مستقل لکھتے ہیں۔