تاریخ

شمس الرحمن فاروقی (1935-2020ء)

طاہر کامران

شمس الرحمن فاروقی (1935-2020ء) اردو کے شاعر، ممتاز ادبی نقاد اور نظریہ نگار ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کے چلے گئے۔ 85 سال کی پختہ عمر میں ان کا انتقال ہوا لیکن موجودہ دور کی ممتاز قد آور ادبی و ثقافتی شخصیت ہونے کے باعث ان کی وفات نے بہت بڑا خلا پیدا کیا ہے جو شاید کبھی پْر نہ ہو۔

زیادہ تر مداحوں نے انہیں بڑی حد تک اردو تنقید کا ٹی ایس ایلیٹ قرار دیا کیونکہ انہوں نے ادبی تنقید کے نئے پیرائے تراشے لیکن میرے نزدیک شمس الرحمٰن فاروقی ایک الگ شخصیت کے مالک ہیں جو اردو ادب کے مختلف شعبوں میں کسی بھی دوسری شخصیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرائی کے ساتھ اثرانداز ہوئے۔

ان کی ذات مشرق و مغرب کا بہترین امتزاج تھی، گو کہ رُڈ یارڈ کِپلنگ کا دعویٰ ہے کہ مشرق و مغرب باہم مل نہیں سکتے۔ فاروقی نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو بغور سمجھا اور بعد میں اردو ادب میں ان کا اطلاق کیالیکن ان اصولوں کو عربی، فارسی اور اردو کے ادبی جمالیات کے مطابق ڈھالنے کے بعد۔

ان کے والد مولوی محمد خلیل الرحمن فاروقی (1910-1972ء) عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی، اردو اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انھیں شاعری کا بہت شوق تھا جسے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شمس الرحمٰن میں پروان چڑھایا جنہوں نے سات سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم لکھی۔ فارسی، عربی اور اردو کی کلاسیکی روایت میں ان کی ادبی تعلیم وتربیت نے ان کے اندر معاشرتی اور ثقافتی زاویوں کو مختلف نوع سے پرکھنے کی ایک نادر بصیرت پیدا کر دی۔

الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر زکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے ادبی ذخیرے میں تجزیہ و تنقید کے اہم پیمانے شامل ہو گئے حالانکہ انہوں نے ابتدائی عمر ہی سے انگریزی میں لکھنا پڑھنا شروع کردیا تھا۔ میرا ہمیشہ یہ نکتہ نظر رہا ہے کہ فکری لحاظ سے شمس الرحمن فاروقی جیسی ہمہ جہت شخصیات اردو زبان و ادب کے ارتقا کے لئے بے حد اہم ہیں لہٰذا اردو ادب کے تمام شعبوں میں مغربی تنقید کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی کلاسیکی بھی پڑھائی جانی چاہئے۔

شمس الرحمان فاروقی بھارت کے محکمہ ڈاک میں ایک افسر تھے تاہم پیشے اور ادب سے لگاؤ میں ایک واضح فرق کے باوجود ان کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد بہت سوں کو حیرت میں ڈال دے گی۔ انہوں نے 1960ء میں لکھنا شروع کیا اور معیار پر سمجھوتہ کیے بغیر بہت کچھ لکھا۔”کئی چاند تھے سر آسمان“ (اس یادگار ناول کا انگریزی ترجمہ 2013ء میں ”دی مرر آف بیوٹی“ کے نام سے شائع ہوا) اور ”شہر شور انگیز“ شمس الرحمن فاروقی کا سکہ جمانے کے لئے کافی تھے کیونکہ ایک زندگی میں کیا گیا یہ کام ہی بہت زیادہ تھا۔

اس کام کی وسعت اور گہرائی کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے فاروقی جیسا وژن اور ہنر رکھنے والا ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس زبردست طریقے سے اس سطح کی کلاسیکی نثر نہیں لکھی جا سکتی۔ ”کئی چاند تھے سرآسمان“ انیسویں صدی کے آخری دور کے اردو شاعر داغ دہلوی جو علامہ اقبال کے استاد بھی تھے، کی والدہ وزیر خانم کی سرگزشت ہے۔ یہ ناول قرۃ العین حیدر کے ”آگ کا دریا“ کے بعد اردو نثر کا بہترین نمونہ ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کا ادبی پیرائے میں اس قدر سجیلا بیانیہ فاروقی کی فہم و فراست اور مہارت کا مظہر ہے۔ اس ناول کو ڈی ایس سی پرائز کیلئے جنوب ایشیائی ادب کی کیٹگری کے لئے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ بہت سوں کو حیرت ہوئی کہ ”کئی چاند تھے سر آسمان“ کو انعام نہیں ملا۔ اسی طرح 1996ء میں شائع ہونے والی میر تقی میر پر چار جلدوں پر مشتمل تنقید بلاشبہ روایت شکن کام ثابت ہوا۔ اس پر انہیں بھارت کے ادبی ایوارڈ سرسوتی سمن سے نوازا گیا۔ یہ اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر کے فن پر سب سے مستند کام ہے۔ علم عروض (شاعرانہ فن کی سائنس) پر ان کا کام ”علم بیان“ جدید ادب کیلئے ان کا ایسا عطیہ ہے جس کی نظیر ان کے ہم عصر ناقدین میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ”تفہیم غالب“ مرزا غالب کے فن پر ان کا تبصرہ بھی قابل ذکر کام ہے۔

ادبی تنقید پر مبنی کتاب ”تنقیدی افکار“ نے انھیں ایک اور قابل تحسین ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا۔ انہیں پدما شری ایوارڈ بھی دیا گیا (یہ بھارت کا چوتھا بڑا سول ایوارڈ ہے)۔ میری خواہش ہے کہ انہیں اس سے بڑے پدما وبھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا جائے۔

2014ء میں شائع ہونے والا افسانوی مجموعہ ”زمین سے طلوع ہونے والا سورج“ ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اس میں پانچ مختصر کہانیاں شامل ہیں۔ ان کہانیوں کے مرکزی کردار ادبی شخصیات ہیں جو 18 ویں اور 19 ویں صدی کے مصائب اور ہنگاموں کے ساتھ نبردآزما ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ فاروقی نے تاریخ اور ادب کو ایک بہت ہی مہذب انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں 18 ویں اور 19 ویں صدی کے ادبی گروؤں کی زندگیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کے بارے میں کہانیاں سنائی گئی ہیں، ان کی زندگی کے کچھ ایسے پہلو اجاگر کئے گئے ہیں جن پر عموماًاس سے قبل صرف نظر کیا جاتا تھا۔

ایک راجپوت نوجوان بینی مادھو رسوا جو 1857ء کی بغاوت میں یتیم ہو گیا تھا، کئی برسوں بعد کان پور سے دہلی کا سفر کرتا ہے تاکہ مرزا اسداللہ خان غالب کا دستخط شدہ دیوان حاصل کر سکے۔ نوجوان میر تقی میر، شاعری کی دنیا کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ، اپنی زندگی کی پہلی عظیم محبت نورس سعادت سے ملتے ہیں جو اصفہان کی ایک بے مثال خوبصورتی ہے۔ ہنگامہ خیز محبت کا معاملہ اور اس کے ساتھ متاثر کن شاعری۔ آرزو مند شاعر اور دولت مند تاجر درباری مل وفا لکھنؤ کے دورے پر جاتے ہیں اور شاعر شیخ مصحفی کی بیوہ کے ذریعے ان کی زندگی اور کام کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

شاعر۔۔ تاریخی شخصیات غالب سے لے کر مرزا جان جاناں، بود سنگھ قلندر، امیر خان انجم، میر تقی میر، کشن چند اخلاص، حیدر علی آتش اور مصحفی تک۔۔ اور شاعری ”زمین سے طلوع ہونے والے سورج“ کی حیرت انگیز کہانیوں کا مرکزی نکتہ ہے، جو شمالی بھارت کے عظیم شہروں میں آباد ہیں اور مغلوں کے شاندار دور کا احاطہ کرتے ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی کا ایک اور قابل ذکر کام داستان گوئی کی روایت کا احیا تھا۔ برصغیر میں 16 ویں صدی میں زبانی کہانی کہنے کی آرٹ 19 ویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچی۔ اس صنف کو حقیقی طور پر 1928ء میں میر باقر علی کی وفات کے ساتھ ترک کر دیا گیا، میر باقر علی وہ شخصیت تھی جنہوں نے داستان گو کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی، نوابوں اور راجوں کی مجلسوں میں ان کو پزیرائی ملی، وہ دہلی کے اشرافیہ کے دیوان خانوں کے مہمان خصوصی تھے۔ اس فن نے پھر اس وقت سانس لیا جب شمس الرحمان فاروقی نے اسے زندہ کیا۔

شمس الرحمن فاروقی اردو ادب کے ناقدین کی ایک نادر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایسی میراث چھوڑ کر گئے ہیں جس کی پیروی کرنا ممکن نہیں۔

بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے

Tahir Kamran
+ posts

طاہر کامران بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی، لاہور میں لبرل آرٹس کی فیکلٹی میں پروفیسر ہیں۔ تاریخ پر نصف درجن کتابوں کے علاوہ وہ کئی تحقیقی مقالات شائع کر چکے ہیں۔