لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرکاری ملازمین نے بلوچستان بھر کی سڑکیں بند کر کے ٹریفک کا سلسلہ معطل کر دیا ہے۔ بلوچستان بھر کے سرکاری ملازمین کے تنظیموں پر مشتمل اتحاد ’گرینڈ الائنس‘کی کال پر بلوچستان بھر کے سرکاری ملازمین گزشتہ 9 روز سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں احتجاج اور دھرنے دیئے ہوئے تھے۔
پیر کے روز ملازمین نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت بلوچستان بھر کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ہر طرح کی ٹریفک معطل کر دی۔ ملازمین نے حب، لسبیلہ، سونمیانی، قلات، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، خاران، واشک اور چاغی سمیت دیگر مقامات سے شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔
بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے پلیٹ فارم سے مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین پچھلے سات روز سے اپنے 19 نکاتی مطالبات کو منوانے کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج میں شامل بلوچستان کے تمام محنت کش بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قوم طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں۔
گرینڈ الائنس کے رہنما اور پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر حمید خان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ملازمین اور محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم محنت کشوں کی جانب سے بھی مزاحمت کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں 10 فروری کو اسلام آباد میں ملازمین کی جانب سے دھرنادیا گیا، جس بعد حکومت نے ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اگلے وفاقی بجٹ تک ان کی تنخواہوں میں عبوری طور پر ’ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس‘ کے تحت 25 فیصد اضافے کی منظوری دی۔
مارچ سے یہ الاؤنس وفاقی ملازمین کو ملنا شروع ہو چکا ہے تاہم صوبائی ملازمین ابھی تک اس سے محروم ہیں۔ 10 فروری دھرنے کے تسلسل میں ہی اب بلوچستان کے سرکاری ملازمین کوئٹہ میں دوبارہ احتجاج کر رہے ہیں۔ 9 دنوں سے جاری احتجاج کے نتیجے میں سرکاری دفاتر کا نظام بری طرح متاثر ہو ا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود ملازمین اپنا حق لینے کے لئے پرعزم ہیں۔“
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ملازمین کے جائزاور تسلیم شدہ حق کو بجٹ پر بوجھ قرار دیا ہے اور مختلف مواقعوں پر جاری بیانات میں ملازمین کی کردار کشی بھی کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا جا چکا ہے اور کورونا وبا کے نام پر ان کے احتجاج کو ختم کروانے کے لئے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہے۔
حمید خان دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اس عرصے جس تناسب سے روپے کی قدر گری ہے اور مہنگائی بڑھی ہے۔ تنخواہ کو پہلے والی سطح پر رکھنے کے لیے بھی اس میں 45 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا اس کے برعکس احتجاج کے بدولت 25 فیصد تنخواہ بڑھانے کا اعلان کرنے کے باوجود نہیں بڑھائی گئی۔“