لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق افسر لیفٹیننٹ کرنل اقبال نے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کو اپنی خدمات فراہم کیں۔ اس کام کے بدلے انہوں نے لاکھوں ڈالر وصول کئے اور ایبٹ آباد آپریشن کے اگلے روز وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل اقبال اب امریکی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہیں۔
کرنل اقبال کو فوج سے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی بنیاد پر نکال دیا گیا تھا، وہ ایک سکیورٹی کمپنی چلا رہے تھے جس میں سابق فوجی افسران ہی شامل تھے۔ وہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کے نزدیک کئی سالوں سے رہائش پذیر حاضر سروس میجر عامر سے ملنے اکثر انکے گھر آتے جاتے تھے۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کی تصاویر بھی بنائیں۔
یہ انکشافات معروف صحافی و مصنف زاہد حسین نے اپنی نئی تصنیف ”No-Win War:The Paradox of US-Pakistan Relations in Afghanistan’s Shadow” میں کئے ہیں۔ ’ڈان‘میں شائع ہونے والے اس کتاب کے اقتباس کے مطابق کرنل اقبال ایک درمیانی سطح کے آرمی آفیسر تھے لیکن ان کی دولت میں کچھ برسوں کے دوران بے تحاشہ اضافہ ہوا، وہ 10 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کی بلٹ پروف گاڑی میں سفر کرتے تھے۔
میجر عامر کے کردار کو بھی متجسس قرار دیا گیا ہے۔ میجر عامر اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے پڑوس میں کئی سالوں سے رہ رہے تھے، انہوں نے کرنل اقبال کی میزبانی بھی متعدد مرتبہ کی۔ ایک حاضر سروس افسر کی طویل عرصے تک ایک ہی جگہ پر تعیناتی بھی عجیب بات تھی۔ میجر عامر امریکی آپریشن کی تحقیقات کرنے والے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے بھی گریزاں رہے۔ تصنیف کے مطابق آئی ایس آئی سربراہ کی طرف سے بن لادن معاملے میں میجر عامر کے ملوث ہونے کے امکان کو رد کرنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شاید انہیں اسامہ بن لادن پر نگاہ رکھنے کیلئے وہاں تعینات کیا گیا تھا۔
تصنیف کے مطابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل پاشا نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعداستعفیٰ دینے کی پیشکش بھی کی جسے آرمی چیف نے مسترد کر دیا تھا۔ تاہم فوج پر اندرونی و بیرونی دباؤ کو کم کرنے کیلئے کچھ اہم فیصلہ جات کئے گئے۔ امریکی فوجی امداد اور پاکستانی فوجیوں کی امریکی تربیت ختم کر دی گئی۔ امریکی خفیہ کارروائیوں پر سخت پابندی کے احکامات دیئے گئے۔ پاکستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو تیزی سے کم کیا گیا۔
تصنیف کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ بھی اعلان کیا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اسلام آباد پر عدم اعتماد کے باعث امریکی سی آئی اے نے آئی ایس آئی کو نظر انداز کر کے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کیلئے اپنا خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا تھا۔ 2005ء سے ہی سی آئی اے نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ اسامہ بن لادن کی تحقیقات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ روک دیا تھا۔ امریکی انتظامیہ کو شک تھا کہ پاکستانی ایجنسی کے کچھ عناصر شاید القاعدہ رہنما کی حفاظت کر رہے ہیں۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ممکنہ موجودگی کی ابتدائی خفیہ معلومات کے بعد سی آئی اے نے اس علاقے میں ایک نیٹ ورک تشکیل دیا تھا۔ القاعدہ سربراہ کی تلاش کیلئے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کچھ پاکستانیوں کو بھی بھرتی کیا گیا۔ یو ایس ایڈ کے دفتر کو بھی اس خفیہ مشن کے کور کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں پربھی روشنی ڈالی گئی ہے جو اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں سی آئی اے کی مدد کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔
تصنیف کے مطابق ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران کو اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے متعلق پہلے سے علم تھا اور انہوں نے اسامہ کے قتل کی منظوری دی تھی۔ اس بات کو پاکستانی حکام کی جانب سے امریکی آپریشن کے بعد ابتدائی رد عمل سے بھی تقویت ملتی ہے۔