نقطہ نظر

پاکستان کے آئین میں لوکل گورنمنٹ کے نظام پر ابہام موجود ہے: قیصر بنگالی

قیصر عباس

معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کے نظام پر عمل درامد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک کے دستور میں اس نظام کے نفاذ پر ابہام کی موجودگی ہے۔ ان کے نزدیک ضروری ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اس نظام کی مکمل تشریح کی جائے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا جائے۔

وہ حال ہی میں امریکہ کی تنظیم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے زیراہتمام ایک آن لائن مذاکرے میں ”پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کے نظام میں اصلاحات“ کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

مذاکرے کے آغاز میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کی بورڈ کی رکن سیدہ عروب اقبال نے، جنہوں نے اس پروگرام کا اہتمام کیا تھا، شرکا کا خیر مقدم کیا۔ پروگرام کے دوسرے شرکا میں ورلڈ بینک کے ماہرین اقتصادیات غزالہ منصوری اور بیجوراؤ کے علاوہ سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو (Center for Peace and Development Initiative) کے مختار احمد علی شامل تھے۔ شندانہ مہمند نے پروگرام کی نظامت کی۔

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دستور میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر دو باب موجود ہیں لیکن اس کے مقابلے میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کی تفصیلات شامل نہیں ہیں جسے صرف چند جملوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں انتخابی طریقہ کار، عہدوں کی نشاندہی، عہدے دارو ں کی ذمہ داریاں اور انتظامی ڈھانچوں کی تشکیل میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ دستور میں اس موضوع پر ایک الگ باب شامل کیا جاناچاہیے۔ ان کے خیال میں آئینی ترمیم کے لئے جرمنی کے دستور سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جس میں مقامی اور بلدیاتی اداروں اور ان کے عملی پہلوؤں پر خا صی معلومات اور قوانین و ضوابط موجود ہیں۔

نظام کی ناکامی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سول اور فوجی حکومتیں، محکموں کے درمیان عدم تعاون، جاگیرداروں کی جانب سے مخالفت، اور کنٹونمنٹ کے علاقوں کی خودمختاری وہ اہم رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کی تاریخ میں سول حکومتوں اور آمروں نے لوکل گورنمنٹ کے نظام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ پاکستانی آمروں کو اپنے غیر قانونی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوری روایات کا سہارا لینے کی ضرورت تھی جنہوں نے لوکل گورنمنٹ کواپنا تسلط مستحکم کرنے کا آلہ کار بنایا اور اپنے اقتدار کے جواز کے لئے استعمال کیا۔

دوسری جانب صوبائی اور مرکزی سطحوں پر منتخب نمائندوں نے اس نظام کو اپنی طاقت کے لئے خطرہ محسوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں لوگوں کو نمائندگی کے حق سے محروم کیا گیا اور ان پر حکومت اور انتظامیہ کو مسلط کیا گیا۔

ان کے نزدیک اس نظام کی ناکامی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ترقیاتی اداروں میں تعاون اور مشترکہ منصوبہ بندی کا تصور ہی ناپید ہے۔ نتیجتاً نظام کاہر محکمہ اپنے دائرے ہی میں کام کر رہا ہے اور ایک ہی قسم کے متوازی منصوبوں پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے جن کی بنا پر ترقیاتی منصوبے ناکام رہتے ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایک انتہائی اہم شاہراہ کو بھاری لاگت سے بنایا گیا لیکن ایک ہی مہینے میں واٹر سپلائی کے محکمے نے اس کی کھدائی کرکے پائپ بچھادئے۔ دیہی اور شہری آبادیوں میں اس قسم کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

ان کے نزدیک ملک کے طول و عرض میں طاقتور جاگیردارانہ نظام بھی اس نظام کی راہ میں حائل ہے۔ جاگیردار اپنے اثر و رسوخ اور سیاسی طاقت کے ذریعے علاقے کے باشندوں کو اس نظام سے باہر رکھتے ہیں۔ یہی طاقتور طبقہ مرکز اور صوبائی سطحوں پر مقامی اداروں کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں مستحکم نہیں ہونے دیتا۔

ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں کنٹونمنٹ کے علاقے بھی ایک اہم رکاوٹ ہیں جن پر ترقیاتی محکموں کی عمل داری نہیں ہوتی۔ بلدیاتی حدود کے درمیان آنے والے ان علاقوں کو منصوبوں میں شامل نہیں کیا سکتا اورترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد مشترکہ حکومت سازی (Integrated Local Government) پر ہو۔ اس نظام کے تحت ہر محکمہ ترقیاتی منصوبو ں میں برابر کا شریک ہو اور دوسرے محکموں سے مل کر کام کرے۔ اس طرح ترقیاتی منصوبوں میں شروع سے اختتام تک تمام اداروں کا تعاون شامل کیا جائے۔

ان کے خیال میں صرف الیکشن ہی اس نظام کا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس مرحلے کے بعد لوگوں کوسہولتیں فراہم کرنا ہر لوکل گورنمنٹ کا بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ طاقتور اشرافیہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتی ہے اور انتخابی نتائج کو ان مفادات کے تحفظ کے لئے ا ستعمال کرتی ہے۔ اس پورے نظام کی ازسرنو تشکیل ہونی چاہیے جس میں عام لوگوں کو ’Propotional Representation‘ کے ذریعے ایک فعال کردار ادا کرنے کے مواقع مل سکیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔