قیصر عباس
مغل شہزادہ، مزدور لیڈر، دیہاتی گنوار یا دیوداس کی صورت میں عاشقِ نامراد۔ دلیپ کمار یا یوسف خان نے ساٹھ سال تک ہندو پاک کے لوگوں کے دلوں پر ان کرداروں میں ڈھل کر حکومت کی۔ ان کی کرشماتی شخصیت، جازب نظر انفرادیت اور لازوال اداکاری کو برصغیر کی وہ نسل جو بٹوارے کے آس پاس پیدا ہوئی اپنے عہد کے ایک مایہ ناز فن کارکی فلمیں دیکھ کر جوان ہوئی تھی۔
دلیپ کمار کے فن اور ان کی زندگی پر ان کی وفات کے بعدبہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ لیکن وہ اپنے عہد کے واحد فن کار تھے جنہوں نے بلا رنگ، نسل اور مذہب برصغیر کے ہر باسی کے دل میں جگہ پائی۔ یہ نہ صرف ان کے فلمی کرداروں بلکہ نفیس شخصیت کا کرشمہ تھا کہ وہ اس خطے میں ایک عرصے تک ثقافتی یک جہتی کا ایک چمکتا ستارہ رہے۔ اس طرح یہ فن کار خطے کے اجتماعی شعور اور اپنے ہنگامی عہد کی علامت بھی تھا جس نے اپنی فلموں کے ذریعے اور لاشعوری طور پر لوگوں کو نامساعد حالات میں بھی ذہنی آسودگی دی اور ان کے جذبات کی ترجمانی بھی کی۔
دلیپ جس عہد میں فن کی بلندیوں کو پہنچ رہے تھے وہ برصغیر کا ایک انتہائی ہولناک دور بھی تھا جہاں دوسری جنگ ِعظیم کے سائے گھٹ رہے تھے اور برصغیر ایک نئے نقشے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ برطانوی سامراج نے مذہبی بنیادوں پر خطے کو تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور صدیوں کے تسلط کو چندماہ کے عرصے میں نبٹا کر نہ صرف خطے کو بلکہ لوگوں کوبھی مختلف سرحدوں میں بانٹ دیا۔
اس خون آشام دور میں دلیپ کمار نے ایک کے بعد ایک المیہ کرداروں کے ذریعے بر صغیر کے دکھوں کی ترجمانی کی۔ جب برصغیر میں نئی سرحدوں کے دونوں جانب خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، دیوداس کا کردارمعاشرے کے اجتماعی رنج و الم کو فلم سکرین کے منظرنامے میں قید کر رہا تھا۔
ان المیہ کرداروں کے سلسلے جب بڑھنے لگے تو ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ نفسیاتی معالجین کے مشورے پر انہوں نے اب نئے مزاحیہ کرداروں کے ذریعے نہ صرف خود کو بلکہ معاشرے کے ہولناک انسانی المیوں کوکم کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح ان کے کرداروں نے دکھوں کی ترجمانی بھی کی اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش بھی کی۔
لیکن یہ سب کسی منصوبے کے تحت نہیں، لا شعوری تحریک کی طرح سینما کے پردے پر نمودار ہو رہا تھا جہاں ان کا ہر کردار اسی معاشرتی اورا نفرادی یاس و الم کی ترجمانی اور پھر اس کے تدارک کے لئے تفریحی داستانوں کو پردہ سیمیں پر پیش کر رہا تھا۔
المیہ کرداروں کے علاوہ ان کا نام رومانٹک فلموں کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کی فلمیں آن، انداز، بابل، ترانہ، مدھومتی، دیوداس اور مغل اعظم عشق کی داستانیں تھیں اور وہ اس رومانوی دنیا کا ایک مرکزی نکتہ تھے۔ ان کے رومانوی کرداروں نے طبقاتی استحصال سے باہر نکلنے میں کوئی مدد تو نہیں کی لیکن لوگوں کو تفریحی مواقع ضرور فراہم کئے۔
یہ بات نہیں کہ دلیپ کمار نے فلموں میں انقلابی کردار نہیں کئے۔ فلم پیغام میں انہوں نے ایک ایسے مزدور لیڈر کا کردار ادا کیا جو سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کو متحد کرتا ہے۔ نیا دور اور فٹ پاتھ جیسی فلمیں بھی عام لوگوں کے روزمرہ مسائل کی بات کر رہی تھیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کوئی نظریاتی اداکار نہیں تھے بلکہ ان کا یقین تھا کہ فلموں کو کسی مقصد کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بی بی سی کے ایک انٹرویو میں انہوں نے صاف طور پر تسلیم کیا کہ وہ انسٹرکشنل فلموں کے خلاف ہیں: ”لوگ سمجھتے ہیں کہ فلم میڈیم کو رجمنٹ کر دیا جائے اور لوگوں کو وعظ دئے جائیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔“ ان کے خیال میں فلموں میں شراب نوشی کے خلاف لیکچر دینا یا کسی اور سماجی مسئلے کے خلاف آواز اٹھا نا پروپیگنڈے کی ایک شکل ہے۔
برصغیر میں فلم انڈسٹری کا آغاز تھیٹر سے ہوا اور اسی کی روایات بالی وڈ کا اٹوٹ انگ بن گئیں۔ آج رقص و موسیقی کے بغیر ہندی فلم کی کامیابی ناممکن سمجھی جاتی ہے۔ ڈرامائی کہانی اور تھیٹر کی طرز پر مکالموں کی ادائیگی آج بھی بیشتر بھارتی فلموں کا خاصہ ہے۔
لیکن دلیپ کمار کے نزدیک اچھی کہانی، اداکاری اور ہدائت کاری کے ذریعے کسی بھی خیال کو کامیاب فلم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود کہتے تھے کہ جب انہیں فلمی دنیا کے لئے منتخب کیا گیا تو ان کا دور دور تک اداکاری سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن ایکٹنگ میں وہ ایک نئی ظرز کے بانی تھے جس میں دھیمے سروں میں مکالموں کی ادائیگی ان کا انفرادی نشان بن گئی۔
میتھڈ اداکاری (Method Style of Acting) میں فن کار اپنے کردار میں پوری طرح ڈھل کر ایکشن اور میلوڈرا میٹک ادائیگی کے بجائے کردار کی شخصیت کی ترجمانی کرتا ہے جو زندگی سے بہت قریب ہوتی ہے۔ اداکاری کے اس انداز میں کلاسیکل اور ایکشن سے لبریز ادائیگی کے بجائے چہرے کے تاثرات، ادائیگی اور کردار نگاری کو اہمیت حامل ہوتی ہے۔ اس تکنیک کے موجد انیسویں صدی کے روسی ہدائت کار اور اداکار کانسٹنٹن سٹننس لاسکی (Konsantin Stainslavski) تھے جسے بعد میں کچھ امریکی اداکاروں نے بھی اپنایا۔
دلیپ کمار نے پہلی بار میتھڈ اداکاری کو بالی وڈ میں فروغ دیا۔ ایک غنڈے یا مافیہ باس کے کردار میں بھی دلیپ کمار چیخنے اور دھاڑنے کے بجائے دھیمے لہجے میں مکاملے ادا کرتے نظر آئے جو زیادہ پر اثر ثابت ہوئے۔ اس طرز اداکاری کے ذریعے وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اداکاری صرف چیخنے اور چلانے کانام نہیں ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلم کا کو ئی کردار مکمل نہیں ہوتا اور وہ زندگی کے صرف ایک مخصوص حصے کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ایک فن کار کا کام ہے کہ اگر اس کے کردار کی عمرتیس سال ہے تو اس سے پہلے کی عمر کے حصوں کے ادراک سے کردار کی تکمیل کرے۔ اس طرح جو کردار نگاری وجود میں آتی ہے وہ اس کی نفسیاتی اور انسانی پہلووں کی صحیح ترجمانی کرتی ہے۔
یہ ان ہی کا کارنامہ ہے کہ بعد میں آنے والے بہترین اداکاروں اور اداکاراوں نے اسی سٹائل کے ذریعے شہرت کی منزلوں پر قدم رکھا۔ دلیپ کمار کے دور کے بعد بالی وڈ میں آرٹ فلموں کا ایک دور بھی آیاجن میں سماج کے چبھتے ہوئے مسائل پر لازوال فلمیں تخلیق کی گئیں۔
ان آرٹ فلموں میں نصیرالدین شاہ (البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے)، شبانہ اعظمی (انکار)، سمیتا پاٹیل (مرچ مصالحہ)، فاروق شیخ (ایک بار چلے آؤ) اور اوم پوری (اردھ ستیہ) جیسے فن کاروں نے اداکاری کے حقیقت پسندانہ انداز اپنائے جن میں دلیپ کمارکے فن کا اثر غالب تھا۔
ان کی ہم سفر سائرہ بانو نے دلیپ کمار کی آپ بیتی Dilip Kumar: the Substance and the Shadow کے دیباچے میں لکھا تھا: ”ان کا سیکو لرنظر یہ حیات ان کے دل کی آواز تھی اوروہ ہر مذہب، ذات، نسل اور کمونٹی کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔“
شاید ان ہی سیکولر تصورات اور یوسف خان کی عوامی مقبولیت کی بنا پر پنڈت نہرو نے انہیں انڈین نیشنل کانگریس میں شریک کیا اور وہ راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے سیاست کا حصہ بھی رہے۔ وہ عہد ساز تو نہیں تھے لیکن اپنے فن کے ذریعے اپنے عہد کے دکھوں کو کم کرنے کا ایک استعارہ ضرور تھے۔
دلیپ کمار کے انتقال کے ساتھ ایک پورا عہد بھی شائد اپنی آخری شام تک بڑھ رہاہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے فن کو کبھی سماجی مسائل کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا لیکن ان کے لا زوال فلمی کردار کسی حد تک معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں اور ناانصافیوں سے شائقین کو باہر نکال کر انہیں سستی تفریح فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ضرور بنے۔
آج کے برصغیر میں مذہبی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کے درمیان نفرتیں انتہائی حدوں کو چھو رہی ہیں لیکن اس دور کے سکرین پر ایسا کوئی ستارہ نظر نہیں آتا جو ہر سماجی اکائی میں یکساں طور پر مقبول ہو اور ان فاصلوں کم کرنے کا ذریعہ بھی ہو۔ بقول شاعر:
خانوں میں بٹ چکی تھیں سمندر کی وسعتیں
دریا محبتوں کے سمٹتی ندی لگے
قیصر دلوں کے فاصلے ایسے نہ تھے کبھی
دو گام طے کروں تو مجھے اک صدی لگے
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔