یاسمین افغان
20 سال بعد طالبان کے اقتدار میں افغان خواتین کیلئے پہلی رات ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھی۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی افغان خواتین غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزار رہی ہیں اور سخت محنت سے حاصل کئے گئے حقوق چھینے جانے کا خوف لاحق ہے۔
کابل کے باشندے اور خاص طور پر خواتین بے بس اور حیران ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ افغان خواتین کی نوجوان نسل اپنے حقوق کے بارے میں جانتی ہے اور ایک جمہوریہ کے تحت زندگی گزار چکی ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں افغانستان اور خاص طور پر کابل میں خواتین تقریباً ہر ادارے کا حصہ تھیں۔ لاکھوں لڑکیاں سکول جا رہی تھیں اور ہزاروں یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی تھیں۔ وہ افغان آئین میں دیئے گئے حقوق سے لطف اندوز ہونے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن خواتین اچانک عوام میں پوشیدہ ہو گئی ہیں۔ پچھلے 24 گھنٹوں سے کابل میں خواتین پوشیدہ ہیں۔ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے خوف نے انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
کابل میں خاتون ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے کہ ”خاموشی مار رہی ہے، میرے دل میں ایک عجیب سا خوف ہے۔ کابل کی خاموشی پریشان کن اور بے سکون کرنے والی ہے۔ میں سو نہیں سکی، میرے دل پر بہت زیادہ بوجھ ہے کیونکہ مستقبل غیر واضح ہے۔“
جلال آباد سے تعلق رکھنے والی سہیلہ، جو انگلش فیکلٹی کی سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں کا کہنا ہے کہ ”مجھے سونے کے لیے نیند کی گولیاں لینی پڑیں کیونکہ غیر یقینی صورتحال مجھ پر اثرانداز ہو رہی تھی۔ میں نہیں جانتی کہ میں یونیورسٹی سے گریجویشن کر پاؤں گی یا نہیں۔“
سعیدہ جو کہ کابل کے ایک سرکاری ادارے میں کام کرتی ہے، نے روتے ہوئے کہا کہ ”میں گھر کی چار دیواری تک محدود ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ انتھک تعلیم حاصل کی اور بہتر مستقبل کے لیے کام کیا لیکن اب میں نہیں جانتی کہ کل کیا ہو گا۔“
کابل شہر کے مغرب میں ایک جم مالک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روتے ہوئے بتایا کہ ”مجھے اپنی 16 سالہ بیٹی کے ساتھ فرار ہونا ہے۔ طالبان پہلے ہی سمجھتے ہیں کہ ہم امریکہ کے لیے کام کر رہے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بیٹی کو چھین لیں گے۔ مجھے اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیے فرار ہونا پڑے گا۔“
حسینہ شیر زاد نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ”کابل میں میری بہن نے مجھے بتایا کہ میں چادری (برقعہ) نہیں پہن سکتی اور ایک بار پھر کوڑے کھانا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہم دونوں فون پر رو رہی تھیں۔“
یونیورسٹی کی طالبہ ہانیہ نے بتایاکہ ”جیسے ہی ہم نے سنا کہ طالبان کابل کے دروازوں پر ہیں، ہم برقع خریدنے کے لیے مارکیٹ کی طرف بھاگے تاکہ کم از کم ہم محفوظ رہ سکیں۔“
شکریہ بارکزئی، جو کہ سابق ایم پی اور سفیر ہیں، نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پرلکھا کہ’’کابل اور اس کے لوگ مکمل صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ میں کبھی نہیں جانتی تھی کہ یہ کھیل دہرایا جائے گا اور اتنی جلدی دوبارہ کھیلا جائے گا۔“
دریں اثنا سرحد کے دوسری طرف پاکستان کی کچھ اشرافیہ خواتین طالبان کے افغانستان پر قبضے کے لیے خوش ہو رہی ہیں۔