عثمان توروالی
کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ محض اس بات سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اس ملک کو قدرت نے کتنے قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور نہ ہی کسی قوم کی شاندار تاریخ ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے۔ جب تک کہ اس ملک کے شہری تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کیے جاتے تب تک کسی ملک کی ترقی، بے شمار وسائل کے باوجود نہ صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے۔ کئی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن پھر بھی ان کی کثیر آبادی، معیاری تعلیم سے محرومی کی وجہ سے، تیسری دنیا میں رہ رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔ جدید دنیا میں، یہ بلاشبہ تعلیم ہی ہے جو کسی قوم کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری میں اس ملک کی طاقت اور مقام کا تعین کرتی ہے۔ وہ افراد جو معیاری تعلیم سے آراستہ ہیں، ایک بہترین ذریعہ ہے جو ایک ریاست اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کے عمل میں بروئے کار لا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک اچھا، منظم اور جدید تعلیمی نظام ہوتا ہے، جبکہ پاکستان سمیت بیشتر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک اس شعبے میں پیچھے ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام مختلف جہتوں اور اقسام پر مبنی ہے۔ یہاں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے اور مدارس ہیں۔ مدارس کے طلبہ کو دیگر اسلامی تعلیمات کے ساتھ اسلام، قرآن اور سنت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور مغربی طرز کی تعلیم، سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ تعلیم کی یہ دو اقسام بنیادی طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
پھر تدریس کے ذرائع کے لحاظ سے مزید تقسیم ہے۔ اردو بمقابلہ انگلش میڈیم، سرکاری اور پرائیویٹ سکول۔ آٹھویں جماعت تک کے پرائیویٹ سکولوں میں مختلف نصاب ہوتے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں میں طلبہ کو مختلف قسم کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ مزید برآں، پرائیویٹ سکولوں کو مزید دو مختلف زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو کہ سماجی درجہ بندی کی وجہ سے ہے، جو اعلیٰ درجے اور نچلے درجے کے سکولوں پر مبنی ہیں۔ مؤخر الذکر اداروں میں تعلیمی اخراجات نسبتاً کم ہوتے ہیں یہ ادارے کم معیار کی تعلیم رکھتے ہیں۔ ان سکولوں میں اساتذہ غیر تربیت یافتہ، نااہل اور کم تنخواہ دار ہیں۔
تعلیمی نظام میں یہ تقسیم قوم کی تقسیم یعنی طبقاتی اختلافات کو گہرا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں تعلیم کا معیار منفی طور پر متاثر ہوتا ہے کیونکہ مدرسہ سے سند یافتہ طلبہ انگریزی نہیں سمجھتے۔ ناقص تعلیم کی فراہمی کی وجہ سے، انگلش میڈیم سکولوں میں طلبہ انگریزی زبان، نصاب کی بنیادی زبان ہونے کے باوجود بھی نہیں سمجھتے۔
ہمارے ملک میں امتحانی نظام بھی مسائل سے پاک نہیں ہے۔ آٹھویں جماعت سے اوپر، بورڈ کا امتحان ملک بھر میں لیا جاتا ہے اور طالب علموں کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں اگلی کلاسوں میں ترقی دی جاتی ہے۔ تاہم، یہ نظام اتنا شفاف نہیں ہے جتنا لگ رہا ہے۔ امتحانی مراکز میں ہر ہال یا کمرے میں صرف ایک استاد موجود ہوتا ہے اور اس کی ڈیوٹی تقریباً ایک سو سے زائد طلبہ پر ہوتی ہے۔ طلبہ اپنے پرچہ جات کو لکھنے کے دوران غیر قانونی اور غیر منصفانہ ذرائع کا سہارا لیتے ہیں۔ مزید برآں، ان امتحانی پرچوں کو چیک کرنے کے لیے، جوابی شیٹ اساتذہ کو بھیجی جاتی ہیں، جو اکثر اوقات یہ پرچے خود چیک نہیں کرتے۔ وہ ان کو چیک کرنے کے لیے اپنے طلبہ کے حوالے کرتے ہیں۔ تاہم، یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب وہ امتحانی پرچوں کو چیک کرتے ہیں اور نمبر دیتے ہیں تو وہ صرف خوش خطی کو مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ طالب علم کی پوری تحریری اور ذہنی پرفارمینس پرکھتے ہیں۔ اس طرح امتحان کے نظام میں دانشورانہ کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ مایوس طلبہ جو اکثر اپنی اصل کارکردگی کے مطابق نمبر لے پاتے، وہ تعلیم ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں یا کم از کم مزید پڑھائی کے لیے کم موٹیویٹڈ محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک اور مسئلہ نااہل اور غیر تربیت یافتہ تدریسی عملہ ہے۔ سرکاری اور درمیانے درجے کے اسکولوں میں دستیاب اساتذہ اپنے پڑھائے جانے والے مضامین کی اچھی علم نہیں رکھتے۔ ان اساتذہ کی پیشہ وارانہ ترقی کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ یہ اساتذہ تربیت یافتہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو پڑھانے کی تکنیک سکھائے گئے ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر طلبہ پر تشدد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، پرائمری سکول، خاص طور پر لڑکیوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ اور خطرناک ہے۔ سکول میں سیکھنے کے بجائے طلبہ، زیادہ تر لڑکے، سڑکوں پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں، نصاب وہ بنیادی آلہ ہے جس کے ذریعے بڑا مقصد حاصل کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں نصاب فرسودہ ہے۔ یہ وقت کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ بیشتر مضامین بیسویں صدی کے ہیں جو بری طرح جمود کا شکار ہیں جو اپ گریڈ نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے طلبہ عصری نئی ایجادات اور مضامین سے غافل ہوتے ہیں۔
رٹا کلچر ایک اور سنگین مسئلہ ہے جو ہمارے تعلیمی نظام میں سرائیت کر گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسباق کی پوری عبارتیں حفظ کریں۔ سائنسی اور دیگر دقیق مضامین کے سمجھنے کی پہلو پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، طلبہ تجزیاتی اور تنقیدی مطالعات میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ رٹے کو دی جانے والی اہمیت نمبروں کو دی جانے والی ترجیح کی وجہ سے ہے۔ ہر گلی میں سکول کے نام کے ساتھ ٹاپرز کے بینرز سے سجائے گئے ہوتے ہیں۔ جو طلبہ کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اچھے نمبر حاصل نہیں کیے تو انہیں کالجوں میں داخلہ نہیں ملے گا۔ نتیجتاً رٹا کلچر پروان چڑھتا ہے۔ اس طرح، ’سیکھنے‘ کے بجائے، ’مارکس‘ کی تعریف کی جاتی ہے اور ’گریڈز‘ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
کسی بھی حکومت نے اب تک پاکستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص فنڈز دیگر شعبوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ حکومت کی عدم دلچسپی نے تعلیم کے شعبے کو بالکل بیکار کر دیا ہے جو کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد پیدا کرنے میں بالکل ناکام ہے۔ یہاں تک کہ حکومتوں کی غفلت بھی اس حقیقت سے دیکھی جا سکتی ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کرسیوں، کمروں اور عمارتوں کے تعداد سے زیادہ تعداد میں ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام ناقص تدریسی عملے سے لے کر ناقص امتحانی نظام تک کے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل نے ملک میں معیاری تعلیم کی ترقی کو روک دیا ہے۔ ایسے ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے قوم کے نوجوان اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ مزید یہ کہ یہ نظام برابری کی بنیاد پر نہیں ہے۔ نچلے طبقے کے بچوں کی ایک بڑی تعداد معیاری اسکولوں میں جانے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بیچ ہی میں چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت وقت کو بین الاقوامی برادری میں قوم کی ترقی کے لیے اس شعبے میں ریفارمز لانے چاہیے اور تعلیمی نظام کی کمزوریوں اور کمیوں کے لیے ہمہ جہت کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ شہریوں کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔