پاکستان

پانچ جولائی 1977ء کے بیالیس سال… کیا تبدیل ہوا؟

لال خان

بیالیس سال قبل 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر شب خون مار کے پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو ختم کیا تھا۔ اس واقعے کو ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ فوجی مداخلت امریکی سامراج کی پشت پناہی اور ترغیب کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں تھی۔ اس دور میں امریکی سامراج کی پالیسی براہِ راست مذہبی بنیاد پرستی کو فروغ دے کر بائیں بازو کی حکومتوں اور تحریکوں کو درندگی سے کچلنے پر مبنی تھی۔ اگرچہ اُس دور میں وہ مذہبیت اور رجعت کے جنون کو براہِ راست استعمال کرتے تھے لیکن آج بھی بظاہر اس بنیاد پرستی کی مذمتوں کے باوجود یہی پالیسی بالواسطہ اور پوشیدہ طور پر مسلسل استعمال کی جا رہی ہے۔

آج اگر سامراجی طاقتیں اس مذہبی دہشت گردی کو اپنے ملکوں میں حوا بنا کر پیش کرتی ہیں تو انکا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ اس دہشت کا خوف محنت کش طبقات کی نفسیات میں اس طرح ٹھونس دیا جائے کہ وہ لاغر ہو کر انکے اقتصادی اور سماجی حملوں کے خلاف کوئی بغاوت نہ کر سکیں۔ یوں ترقی یافتہ مغربی ممالک میں فلاحی ریاست کو ایک بتدریج منصوبہ بندی کے تحت دھیرے دھیرے مسمار کیا جا رہا ہے کیونکہ سرمایہ داری میں ان عوامی سہولیات اور مراعات کی گنجائش نہیں بچی ہے۔ ایسے میں کبھی قومی شاونزم کی منافرت اور کبھی مذہبی دہشت گردی کا خوف محنت کش طبقات کی یکجہتی کو توڑنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

1977ء میں امریکی سامراج کو پاکستان میں ایک ایسی حکومت کا سامنا تھا جس کا وزیر اعظم کبھی خودسر ہوجاتا تھا اور ایسی مکمل اطاعت سے انکاری تھا جو امریکی سامراج کو درکار تھی۔ایسے میں ضیاالحق، جو اعلیٰ امریکی فوجی ادارے فورٹ بریگ سے تربیت یافتہ تھا، امریکی حکام اور پینٹاگون سے قریبی روابط استوار کرچکا تھا۔ اگر غور کیا جائے تومغربی اور مشرقی سامراجی ممالک، جو پاکستان جیسے ممالک کے اعلیٰ ریاستی اہل کاروں کو اپنے ان اداروں میں بلواتے ہیں، ان کے کورس کرواتے ہیں، ان پر اخراجات کرتے ہیں، وہاں انکی صر ف عسکری یا انتظامی تربیت ہی نہیں بلکہ ’’نظریاتی‘‘ تربیت بھی کی جاتی ہے۔ اسی عمل میں وہ یہاں کی ریاستوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کلیدی عہدوں پر ’’اپنے آدمی‘‘ تعینات کرواتے ہیں۔

معزولی کے بعد بھی جب بھٹو نے اطاعت سے انکار کیا تو اس پر مقدمات بنائے گئے اور نفسیاتی اذیتوں کا شکار کیا گیا۔ لیکن یہ جبر اسے مزید مشتعل کرنے کا باعث بنا اورجیل کی کال کوٹھڑی میں لکھی گئی تحریر ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں بھٹو نے صاف لکھ دیا کہ اس کے زوال کی وجہ اس کی متضاد طبقات میں ہم آہنگی اور مصالحت پیدا کرنے کی فرسودہ پالیسی تھی۔ یوں ایک طرح سے وہ اعادہ کر رہا تھا کہ دوبارہ اقتدار میں آیا تو سرمایہ داری اور طبقاتی معاشرے کے خاتمے کی پالیسیاں اپنائے گا۔ سامراجیوں اور مقامی حکمران طبقات کو بھی یہی خوف لاحق تھا جو عدالتی قتل کے ذریعے بھٹو کی موت کا سامان بن گیا۔

ضیا الحق کی ’’اسلامائزیشن‘‘ سامراجیوں کی ہی ترغیب اور حمایت سے تھی۔ اس کے خارجی اور داخلی دونوں طرح کے عزائم تھے ۔ بیرونی محاذ پر افغانستان کے ثور انقلاب کو برباد کرنے کے لئے اسے استعمال کیا گیا۔ داخلی میدان میں اسے ہر ترقی پسند اور انقلابی رجحان کو کچلنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ظلم و جبر کی انتہائیں ہوئیں۔ کوڑوں اور پھانسیوں کا دستور رائج ہوا۔ رجعت کے اس جبر نے معاشرے میں ایسی منافقت کو جنم دیا جو بالخصوص درمیانے طبقات میں آج  تک عام ہے۔

جون 1978ء میں امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زیبگنیو برژنسکی نے اپنے دورہ خیبر کے دوران ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگا کر افغان (ڈالر) جہاد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ دنیا بھر سے جنگجوؤں کو یہاں لا کر لانچ کیا گیا۔ یہاں غریبوں کے ان گنت بچوں کو مدرسوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اس ردِ انقلابی جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ آج چالیس سال بعد افغانستان تو تاراج ہو ہی رہا ہے لیکن اس ڈالر جہاد نے پاکستان کا بھی جو حشر کر دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

جب 1978ء کے وسط میں اس جہاد (سی آئی اے کا آپریشن سائیکلون) کا آغاز کروایا گیا تو افغانستان میں روسی فوجوں کا نام ونشان نہیں تھا۔ نور محمد ترکئی کی حکومت ماسکو پر قطعاً اعتبار نہیں کرتی تھی اور کسی بڑی طاقت کی بغل بچہ بننے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہی تھی۔ افغان انقلاب کے نقطہ نظر سے روسی فوجوں کی مداخلت ایک منفی اقدام تھا۔ اس کا مقصد افغانستان کے انقلاب سے زیادہ ماسکو کی افسر شاہی کے مفادات کا تحفظ تھا۔ لیکن جیسے روسی فوجوں کا آنا غلط تھا اسی طرح آنے کے بعد اتنا اشتعال پیدا کروا کے اچانک چلے جانا بھی غلط تھا۔

اس روسی مداخلت کو جواز بنا کر مغربی سامراجیوں نے پراپیگنڈے کی یلغار کر دی۔ 1980ء کے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کروایا گیا اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی امیر بادشاہتوں سے بے پناہ دولت اس جہاد کی ’’امداد‘‘ کے لئے اکٹھی کی گئی۔ جہاں اس دولت سے اسلحہ خریدا گیا وہاں افغانستان اور پاکستان میں ٹریننگ کیمپ بھی قائم کئے گئے۔ امریکہ سے بڑی تعداد میں جہادی لٹریچر چھاپ کر یہاں تقسیم کیا گیا۔ مذہبی جنون کو ہر طرح سے ابھارا گیا۔ مغربی سامراج اپنے انہی لاڈلوں کو آج دہشت گرد کہتے ہیں۔

پاکستان میں اس دیوہیکل رجعتی عمل کے جہاں دوسرے انتہائی مضر سماجی اثرات مرتب ہوئے وہاں کلاشنکوف کلچر، بھتہ خوری، منشیات کے کاروبار و استعمال نے بھی پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر جنم لیا۔ آج تک یہ بیمار معاشرہ اس زہر سے بلک رہا ہے۔ آج اسی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو رہے ہیں۔ لیکن نہ تو ماضی کی ان مجرمانہ غلطیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے نہ ہی ان پالیسیوں میں کوئی ریڈیکل تبدیلی نظر آتی ہے۔

اس جہاد کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے سی آئی اے نے جو منشیات کی تیاری و ترسیل کا نیٹ ورک بچھایا اس نے کالے دھن کی مسلسل بڑھتی ہوئی معیشت کو جنم دیا۔ مختلف جرائم پر مبنی یہ معیشت آج پاکستان کی سرکاری یا درج شدہ معیشت سے بھی بڑا حجم اختیار کر چکی ہے۔ اسکی مداخلت سیاست، معاشرت اور ریاست میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ سیاسی پارٹیوں سے لے کر سماجی اخلاقیات کے ان داتاؤں تک کو اپنے اختیار میں لے چکی ہے۔ اس کے مافیا مالکان سارے کھیل اپنے مفادات کے تابع کر رہے ہیں۔

یوں 5 جولائی کے بعد ہر شعبے میں آنے والی رجعتی تبدیلیاں آج تک بھی قائم ہیں۔ بعد ازاں بہت سی نام نہاد جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن آئین میں ٹھونسی گئیں ضیاالحقی شقوں میں سے کسی ایک کا بھی خاتمہ نہیں کر سکیں۔ آج اِس ’’جمہوریت‘‘ کی ساری سیاست ہی آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر ہوتی ہے۔ لیکن ان کو مقدس سمجھنے والے آج کل خود بھی انکی بلی چڑھ رہے ہیں۔ جہاں سیاست اور سرکار دونوں اسی کالے دھن کی آمریت کے تابع ہیں وہاں جمہوریت اور آمریت کے جعلی تضاد کو ابھار کر امارت اور غربت، محنت اور سرمائے کے بنیادی تضاد کو دبایا جاتا ہے۔

جمہوری حکومتوں کے گزشتہ دس سالوں کے دوران یہ معاشرہ مزید زوال پذیر ہی ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کی بات کریں تو نہ صرف طبقاتی جبر و استحصال، قومی محرومی، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری بلکہ مسلسل گھٹتی جمہوری آزادیوں کے حوالے سے بھی حالات ماضی کی آمریتوں سے بد تر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی سرمایہ داری اس قدر بیمار اور بحران زدہ ہو چکی ہے کہ اس میں کوئی صحت مند جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ اس نظام کی بربادیوں کے خلاف تحریر و تقریر کی گنجائش بھی مسلسل سکڑ رہی ہے۔ آج کا میڈیا ماضی کے ایک سرکاری چینل سے بھی کہیں زیادہ مطیع اور کنٹرولڈ ہے۔ ہر آنے والے دن محنت کش طبقے پر کسی نئے سیاسی، معاشی اور سماجی حملے کی خبر لے کے آتا ہے۔ معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے۔ داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا تعین وہ سرکاری ادارے کرتے ہیں جن کے پاس حقیقی طاقت ہے۔ 

ضیا آمریت کے بعد کی تین دہائیوں سے زائد کے عرصے نے واضح کیا ہے کہ 5  جولائی 1977ء کی رجعتی تبدیلی نے جو زہر اس سماج کی رگوں میں داخل کیا اس کا تریاق لبرل/سیکولر سیاست یا سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ آمریت  یا جمہوریت بذات خود نظام نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک نظام کو چلانے کے طریقے ہوتے ہیں۔ اور مسلسل بڑھتا ہوا جبر اس نظام کو چلانے کا تقاضا بن چکا ہے۔ اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کے اندھیر کو مٹائے بغیر 5 جولائی کی تاریکی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔