وامق سلیم
(یہ مضمون پہلی بار ہفت روزہ مزدور جدوجہد کے فیض نمبر میں شائع ہوا۔ اسے قارئین جدوجہد کی دلچسپی کے لئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے)
انسانی زندگی کے بہت ابتدائی دور میں معاشرہ کی تنظیم اشتراکیت کے اصولوں پر قائم تھی۔ سبھی مل جل کر شکار کرتے۔ جنگل سے پھل وغیرہ اکٹھے کرتے اور بانٹ کر کھا پی لیتے جو کچھ تھا وہ سب کا تھا اور سب کے لئے تھا۔ رفتہ رفتہ کھیتی باڑی شروع ہوئی۔ مویشی پالے گئے۔ روزمرہ کی ضرورتوں سے زیادہ چیزیں پیدا ہوئیں تو کچھ طاقتور اور ہوشیار لوگوں نے صرف اپنے لئے ذخیرہ کرنا شروع کیا اور چیزوں کا تبادلہ کرنا شروع کیا۔ اس عمل نے بڑھ کر ذاتی ملکیت کو رواج دیا۔ برابری کی جگہ اونچ نیچ نے لے لی جو بتدریج غلامی، جاگیرداری، سرمایہ داری تک پہنچی۔ انسانیت ایک ایسی معاشی اور سماجی ترتیب میں سانس لینے پر مجبور ہوئی جہاں مُٹھی بھر محنت لوٹنے والے لٹیروں نے زمینوں، کارخانوں، کانوں، دریاؤں، بنکوں، دکانوں، مکانوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مزدور، کسان اور دوسرے کامگار ان مشقت کدوں میں دن رات خون پسینہ بنا کر لٹیروں کی دولت اور طاقت میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
اس تکلیف دہ صورت ِ حال سے جنم لینے والی غربت، بدحالی،بیماری، بیکاری اور دوسری برائیوں کو برا سمجھنے اور ختم کرنے کی خواہش مختلف وقتوں اور علاقوں میں کی گئی۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں ان تکلیف دہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کی مخلصانہ کوششیں کیں۔ غریبوں کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی۔ موت کے بعد آسمانوں پر اچھی خوراک،عمدہ لباس،شاندار رہائش اور خوبصورتی کے قرب کی بشارت سنائی گئی۔ دنیا سے منہ موڑ کر ذاتی آسودگی کے لئے ”نروان“ حاصل کرنے کا کہا گیا ”آواگون“ کے ذریعے اس جنم میں دکھ جھیلنے والوں کو اگلے جنم میں اعلیٰ زندگی کاسندیس دیا گیا اور امیروں کو سب سے اچھا سلوک کرنے اور رضاکارانہ طور پر نیکیاں کرنے، خیرات دینے کا کہا گیا، اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کا سبق دیا گیا۔ سب نسخے ناکام رہے اور کامگارنجات حاصل نہ کر سکے۔ ذاتی ملکیت اور طبقاتی نظام کے آتش فشاں سے ابلتے ہوئے غلیظ لاوے نے محنت کشوں کے شب و روز میں درد و الم کی جان سوزیوں کا اضافہ ہی ہوتا گیا۔
انیسویں صدی میں اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے اور محنت کشوں کو آزادی دلانے کے لئے کارل مارکس نے سائنٹیفک سوشلزم کا عَلم لہرایا، اس نے کہا کہ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لئے ذاتی ملکیت والے طبقاتی نظام کو تہس نہس کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے محنت کشوں کی قیادت میں سب درد مندوں کو اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی جس کے نتیجے میں قائم شدہ سماجی ترتیب میں سب کو کام اور سب کی ضرورت کے مطابق سب کچھ مہیا کیا جا سکتا ہے۔اس آواز کے پرچم تلے مختلف معاشروں میں محنت کشوں نے مختلف ناموں سے جدوجہد شروع کی۔ اس سلسلہ کی پہلی فتح 1917ء کا روسی انقلاب تھا جس کی قیادت لینن اور ٹراٹسکی نے کی۔ اس انقلاب نے دنیا بھر کے محنت کشوں میں ایک نئی جاگرتی اور ولولہ پیدا کیا۔ اس وقت دنیا کے کتنے ہی ملکوں میں مغربی استعمار نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ 1919ء میں لینن نے Colonial Thiesis (کلونیل تھیسس) پیش کیا جس میں مغربی استعمار کے شکار ملکوں کے عوام کی تکلیف دہ اور غیر انسانی زندگیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان ملکوں کے عوام کو بالخصوص محنت کشوں اور کسانوں کو، اکٹھے ہو کر مکمل آزادی کی لڑائی لڑنی چاہئے۔ سوشلزم کی سوچ اور اس تھیسس کے زیر اثر مختلف ملکوں میں کمیونسٹ پارٹیوں کی تشکیل ہونا شروع ہوئی۔ ہندوستان کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد 7 اکتوبر 1920ء کو تاشقند میں سات ہندوستانی مارکسسٹوں نے رکھی اور ہندوستان آکر باقاعدہ مارکسی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا— ٹریڈ یونین، کسان اور نوجوان سبھائیں بنائی گئیں۔ برصغیر میں ابھرنے والی ان تاریخی قوتوں، سوچوں نے 1920ء، 1930ء کی دہائیوں میں غیر ملکی تسلط اور عوام کی معاشی، معاشرتی بہتری کے لئے کام کرنا شروع کیا تو اس سے متاثر ہو کر لکھنے والوں نے بھی باقاعدہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی نومبر 1935ء میں بنیاد رکھی— ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس 15اپریل 1936ء کو ہوئی جس میں اعلان کیا گیا:
”ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے وہ اس قسم کے انداز تنقید کو رواج دیں جس سے خاندان، مذہب، جنس، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسندی اور مادہ پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جا سکے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادبی رجحانات کو نشوونما سے روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمائت کرتے ہیں — ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں، اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔“
فیض اس سارے عمل میں متحرک اور شریک رہے۔امرتسر میں کانفرنس کی ذمہ داری نبھائی اور کہا:
”ایسا شخص جس کا کوئی نظریہ نہ ہو کہ یہ دنیا اچھی ہے یا بری؟ لوگ اچھی طرح رہتے ہیں یا بری طرح؟ ان کے لئے کچھ کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے؟ یا انسانیت کس طرف جا رہی ہے یا کس طرف نہیں جا رہی؟ کوئی ایسا حسّاس یا ذی شعور آدمی نہیں ہو سکتا،ہر فنکار اور ادیب کے لئے شعور لازمی ہے۔“
ا س مارکسی نقطہئ نگاہ نے فیض کو روائتی رومانوی شاعری سے ہٹ کر کچھ کرنے پر اُکسایا اور اس نے اُردو ادب کی سب سے اہم نظم لکھی جس نے اس نقطہئ نگاہ کو ایک تحریک کی شکل دے دی۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
شاعری میں اس وقت کے جاری و ساری روائت کو ایک بالکل نیا رنگ دیا، ”تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے“ سے توجہ ہٹا کر ”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ کا اعلان کیا اور
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے
پر بھی نظر رکھنے کی فرمائش کی۔ شاعروں نے اس فرمائش کو دھیان سے سنا اور عوامی ترقی پسند موضوعات تخلیقات کا محور بن گئے جس پر رجعت پسند حلقوں کی طرف سے بہت اعتراضات کئے گئے کہ یہ موضوعات غیرادبی، غیر شاعرانہ ہیں وغیرہ وغیرہ، جس پر فیض کا جواب سنئے:
”فطرت کی سفاکیاں، گلی کوچوں میں بلبلاتے بچے۔ ظالم سماج کا جورو استبداد، آزادیئ وطن کے لئے ابھرتی ہوئی تحریکیں انہیں دکھائی نہیں دیتی یا پھر انہوں نے بے ضررمحفوظ راہِ فرار اختیار کر لی۔ ان حقائق سے متعلق لکھنے کو یہ حضرات پراپیگنڈے سے تعبیر کرتے تھے۔ اسے تخلیق ماننے سے منکر تھے — حسن اور حسن پرستی خوبصورت چیز ہے مگر ایک حسین معاشرے کو تخلیق کرنا یا اس کی تخلیق میں مقدور بھر کوشش کرنا زیادہ حسین ہے“۔
یہ سلسلہ چلتا رہا —غیر ملکی استعمار کے خلاف اور عوام کی حمائت میں پیشرفت ہوتی رہی۔
1947ء میں انگریزی استعمار کی ظالمانہ حاکمیت کا دور ختم ہوا، یہ ظالمانہ دور دو ڈھائی سو سال ہندوستان کے ہی نوابوں، راجوں، ساہوکاروں اور جاگیرداروں کی مسلسل حمائت اور شمولیت کے ساتھ ہندوستان کو لوٹتا رہا—
تقسیم کے وقت رونما ہونے والے وحشیانہ فسادات کی ترقی پسند ادیبوں،شاعروں نے بھرپور مذمت کی —
فیض نے پھر ایک عظیم نظم تخلیق کی:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
اور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارہئ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
اور کہا کہ
ابھی گرانیئ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اس نظم میں فیض نے انگریزی استعمار کی رخصتی کو نامکمل آزادی کہا کیونکہ وہ مارکسی سوچ رکھنے والا انسان تھا اور اس سوچ نے فیض کو واضح طور پر اطلاع دے دی تھی کہ بقول مارکس:
”ریاست، برسرِاقتدار گروہ کے مفادات کی نگہداشت کرنے والی ایک کمیٹی ہوتی ہے۔“
انگریز جاتے وقت پاکستان میں اقتدار کی باگ ڈور اپنے پرانے مددگار اور ساتھی جاگیرداروں کو سونپ گیا تو ان سے عوام کے معاشی، معاشرتی اور تمدنی حقوق کو عوام تک پہنچانے کی توقع بے سود ہے اور اس حاکمیت کے دوران مزدوروں، کسانوں اور دوسرے محنت کشوں کو سہولتیں میسر نہیں آئیں گی— غیرملکی غلامی سے چھٹکارا مکمل آزادی کی منزل تک پہنچنے میں ایک سنگِ میل تو ہے مگر مکمل آزادی نہیں —یہ صحیح تو ہے مگر اس میں کجلاپن ہے۔ یہ ادھوری ہے۔
فیضؔ کہتا ہے:
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تو سوچئے کہ ”وہ منزل“ کونسی ہے؟ فیض چونکہ مارکسی سوچ سے متعلق ہیں، فیض کے نزدیک ہندوستان اور پاکستان کے مسائل کا حل بھی مارکسی ہے۔ فیض کی ”وہ منزل“ یوں ہے۔
”وہ ایک ہی ہے کہ دونوں ملکوں میں محنت کش اپنے حقوق حاصل کر کے اپنے اپنے چمنستانوں کے والی بن جائیں“۔
فیض جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ طبقاتی ہے جہاں ایک ذرائع پیداوار پر قابض طبقہ دوسرے طبقہ کو جو محنت بیچنے پر مجبور ہیں، مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹتا ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اس استحصالی نظام نے دو جدا جدا طبقوں مثلاً ”غلام اور آقا۔ جاگیردار اور مزارع۔ کارخانہ دار اور مزدور کو جنم دیا جہاں غلام، مزارع اور مزدور اپنی بے مائگی کے ارد گرد پھیلی عیش و عشرت کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں:
بے فکرے، دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
اس طبقاتی معاشرہ کو ختم کرنا تمام انسانیت کو خوبصورت بنانے کے لئے ضروری ہے۔ اس پاکیزہ مقصد کے حصول میں ہر دردمند کو اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہے جیسا فیض کہتا ہے:
”حیاتِ انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسبِ توفیق شرکت زندگی کا تقاضہ ہی نہیں فن کا تقاضہ بھی ہے۔ فن اس زندگی کا ایک جزو اور جدوجہد کا ایک پہلو ہے۔ اس کوشش میں مصروف رہنا بہرطور ممکن بھی ہے اور لازم بھی“
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزری ہے، رقم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
مر جائیں گے ظالم کی حمائت نہ کریں گے
احرار کبھی ترکِ روائت نہ کریں گے
اس محنت کش جدوجہد میں فیضؔ اپنی ٹریڈ یونین سرگرمیوں، صحافت میں نئی سمتوں کی کاشت کرتے، نوجوانوں سے میل ملاپ کے ساتھ ساتھ اپنے شعروں سے بھرپور شرکت کرتے ہیں:
یونہی الجھتی رہی ہے ہمیشہ ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
روائتی جمہوری انداز سے عوام اپنے حقوق اور مطالبات حاصل کرنے کے لئے تنظیمیں بناتے ہیں۔ جلسے جلوس کرتے ہیں۔ پمفلٹ لکھتے بانٹتے ہیں۔ رسالے شائع کرتے ہیں۔ قانون کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں —عوام کی ان پُرامن کوششوں کو صاحبان ِ اقتدار غصہ اور خوف سے دیکھتے ہیں۔ جرم گردانتے ہیں۔ بغاوت کا نام دیتے ہیں۔ ان کے خلاف قوانین بناتے ہیں اور حکومتی لاٹھی، آنسو گیس، گولی اور جبر سے عوام کی ان کوششوں کو دباتے ہیں۔ عوام اور عوام دشمن حاکمیت کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے اور کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ عوام کی پُرامن اور جمہوری جدوجہد حکومتی تشدد کا اس قدر شکار ہو جاتی ہے کہ کوئی اور طریقہ سوچنا پڑتا ہے۔ مارکسی فلسفہ پرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد یا طاقت کے استعمال کو بھی جائز سمجھتا ہے مگر دہشت گردی کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا کہ کچھ لوگوں کو قتل کیا جائے کیونکہ مارکسسٹ جانتے ہیں کہ محنت کشوں، کسانوں اور دوسرے کامگاروں کا استحصال اور ان پر تشدد کسی ایک یا چند آدمیوں کا کام نہیں کہ ان کو ختم کر کے یہ استحصال اور تشدد ختم کیا جا سکتا ہے چونکہ اس استحصال اور تشدد کا سبب سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے اور اس سے نجات صرف اور صرف لاکھوں، کروڑوں لٹنے والوں کی لگاتار کوشش سے اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے ہی ممکن ہے مگر مارکسسٹ اس استحصال اور تشدد کے سامنے چپ چاپ عاجزانہ سر جھکا کر لگاتار برداشت کرنے کو بھی پسند نہیں کرتے۔ اپنی مدافعت میں طاقت کا جواب طاقت سے دینے پر بھی یقین رکھتے ہیں —اسی مارکسی سوچ نے فیضؔ جیسے درد مند دل (سلوک جس سے ہم نے کیا عاشقانہ کیا) میں ایک جنگجو کا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا جس کا اظہار یوں ہوتاہے:
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہ جائیں گے
ہم نہ رہیں غم بھی نہ رہے گا
اب کوچہئ دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ہٹتے بھی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کے جھٹک دینے کی توفیق ملے
تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ، قہرِ طوفان بھی
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو
بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے
منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو ہر اک بوند قہر افعی ہے
حذر کرو کہ میرا دل لہو کا پیاسا ہے
مسلح جدوجہد چین، کیوبا، ویتنام میں فتحمند ہو کر آج بھی عراق، افغانستان، فلسطین، ہندوستان، چیچنیا اور نیپال میں جاری ہے۔ وطن پرستی فیضؔ کی شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ وطن پرستی کے بارے میں مارکسی رہنما ماؤزے تنگ نے کہا ہے:
”کیا ایک مارکسی انٹرنیشنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ وطن پرست بھی ہو سکتا ہے؛ ہم کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکنے کی بات تو چھوڑیئے اسے ضرور وطن پرست ہونا چاہئے“۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
بہت ہیں ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لئے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
اور ”دو عشق“ تو محبت کی سرشاری اور وارفتگی کی ایک عمدہ ترین مثال ہے کہ محبوب کی ”پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت“ اور ”اس در سے بہے گا تیری رفتار کا سیماب“ کے بالکل ساتھ ساتھ لیلائے وطن کو بھی اتنا ہی پیار کیا ہے:
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہئ منبر
کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
فیض کی وطن پرستی وطن میں رہنے والے محنت کشوں، کسانوں، زرد پتوں، درد کی انجمن، کلرکوں، پوسٹ مینوں، تانگے والوں، ریل بانوں، کارخانوں کے بھوکے جیالوں، دہقان جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے دھجیاں ہوگئی ہے، حسیناؤں، جن کی آنکھوں کے گل چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ کھل کھل کے مرجھا گئے ہیں،نو بیاہتاؤں،جن کے بدن بے محبت ریاکار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں، بیواؤں، کٹڑیوں، محلوں، پڑھنے والوں، اسیروں، آنے والے دنوں کے سفیروں سے والہانہ عشق اور محبت کی وطن پرستی ہے— سرمایہ دار معاشرہ میں دو طبقوں اور ان کے جدا جدا مفادات کا فیضؔ کو علم ہے اور اپنے وطن سے محبت اپنے دیس کے باسیوں کی خستہ حالی، قوم کی عزت و ناموس کی ارزانی، لوگوں کی ناداری، جہالت، بھوک اور غم پر تڑپنے کی وطن پرستی ہے۔ لوٹنے والے طبقہ کی جھوٹی وطن پرستی نہیں جو اپنے مفادات کی خاطر وطن کی عزت و ناموس کا سودا کرتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے، جو اپنا جاگیردارانہ اقتدار قائم رکھنے کے لئے آدھاملک گنوا دیتے ہیں۔ فیض وطن پرست ہونے کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنلسٹ بھی ہیں۔ مارکسی اصول، ”دنیا بھر کے کامگارو ایک ہو جاؤ“ کی روشنی میں فیضؔ سب ملکوں کے مظلوموں سے بھی محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں — کہیں بھی ظلم ہو فیضؔ بولتے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ ہوتی تو سرِ وادیئ سینا میں کہا:
اب رسم ستم حکمتِ خاصانِ زمین ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیئ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لئے:
بیروت نگارِ بزم جہاں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک دائم ہے
ایفریقا کم بیک
آجاؤ ایفریقا
آجاؤ میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آجاؤ میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال —آجاؤ ایفریقا
ایرانی طلبہ کے نام!
یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن چھن چھن
دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی جاتی ہیں!
یہ طفل و جواں اُس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبحِ بغاوت کا گلشن
فلسطین کے بارے میں
جس زمین پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہیں ارضِ فلسطین کا عَلم
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد
روزنبرگ جوڑے کے نام:
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
فیضؔ ملک کے اندر اور باہر کہیں بھی ظلم و زیادتی ہو، اس ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہی مارکسی سوچ کا تقاضا ہے— یہی لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چند انسانوں کا بے شمار انسانوں پر ظلم روکنے کے لئے کام کریں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
بولیں اور سچ بولیں مگر سچ بولتے وقت مظلوم اور ظالم طبقے کے سچ میں جو بہت بڑا فرق ہے، اس کا مارکسی تجزیہ ضروری ہے۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ پاکستان کے ایک لحیم و شحیم باریش جاگیردار وزیرِاعظم نے کہا کہ:
غریبی اور امیری اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جب چاہے گا ختم کر دے گا
یہ سچ نہیں۔ جھوٹ ہے —سچ یہ ہے کہ غریبی امیری اللہ تعالیٰ نے نہیں جاگیردار اور سرمایہ دار ٹولے نے پیدا کی ہے جو محنت کش اور کسان کی محنتوں کو ہڑپ کر کے اپنی امیری اور غریبوں کی غریبی میں اضافہ کرتا ہے۔ جاگیردار سرمایہ دار مذہب کی ایسی تشریحات کرتے کرواتے ہیں جن سے ان کے طبقاتی مفاد کے خلاف ممکنہ طور پر اٹھ کھڑی ہونے والی عوامی احتجاج کو نیند کی گولیاں دی جاتی رہیں۔ لٹنے والے الجھے رہیں،سوئے رہیں اور لوٹ مار جاری رہے۔
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیازمندی سے
بُتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
فیضؔ کی ”متین آوازیں“ اسی بارے میں ہے مظلوم کہتا ہے:
یا خدا یہ میری گردانِ شب و روز و سحر
یہ میری عمر کا بے منزل و آرام سفر
کیا یہی کچھ میری قسمت میں لکھا ہے؟
ہر مسرت سے مجھے عاق کیا ہے تُو نے؟
وہ یہ کہتے ہیں تُو خوشنود ہر اک ظلم سے ہے
وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظلم تیرے حکم سے ہے
پھر مارکسی سوچ کہتی ہے کہ ایسا جھوٹ بولتے
ہر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اٹھے گا جب جمعِ سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہو گا کہ جو بچالے
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہو گا
یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہو گا
اس”جمعِ سرفروشاں“ کے اٹھنے اور اس ”روزِ حساب“ کے برپا ہونے کی امید ایک سرفروشانہ وابستگی کا تقاضہ کرتی ہے۔ تکلیفیں اٹھاتے اٹھاتے ایک لمبے عرصے تک جدوجہد کرنے کی مانگ کرتی ہے— شکست نہ ماننے اور آس مند رہنے کا کہتی ہے —کارل مارکس نے کہا:
”جب ہم نے چن لیا کہ ہم انسانیت کے لئے کام کریں گے تو کوئی بھی بوجھ ہمیں جھکا نہیں سکتا کیونکہ ہماری قربانیاں سب لوگوں کے فائدے کے لئے ہیں۔ ہم اپنے لئے کوئی خودغرضانہ خوشی نہیں چاہیں گے۔ہماری خوشی کروڑوں انسانوں سے وابستہ ہے۔ ہمارے کام، ہماری جدوجہد چپ چاپ جیتے رہیں گے اور ہمارے مرنے کے بعد پاکباز لوگ ہماری راکھ پر پیار کے آنسو بہائیں گے“۔
فیضؔ کی زندگی اس بیان کی قابلِ فخرتصویر رہی—
زندانِ رہ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے نہ کوئی بند قبا ہے
ملکہئ شہرِ زندگی تیرا
شکر کس طور سے ادا کیجئے
جو تیرے حسن کے اسیر ہوئے
ان کو تشویش روزگار کہاں
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اس سے خوش وقت کاروبار کہاں
ماسکو میں اپنے روسی مترجم کے کہنے پر کہ پاکستان میں پھر آمریت آگئی ہے اور آپ وہاں گئے تو پھر جیل یقینی ہے۔
فیضؔ بولے ”شائد— اگر کسی بڑے مقصد کی خاطر جیل بھی جانا پڑے تو ضرور جانا چاہئے۔
”لیکن اگر جیل سے بھی بدتر کچھ ہو؟“ فیض نے مسکراتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا”اگر جیل سے بدتر کوئی چیز ہو تو پھر یقینا برا ہوگا لیکن تم جانتے ہو جدوجہد بہرحال جدوجہد ہے“۔
کارل مارکس نے اس جدوجہد کی طوالت/ تکالیف کا اظہار یوں کیا:
”جدوجہد کتنی ہی دہائیوں پر محیط ہو سکتی ہے اور اس لمبے عرصہ کے دوران پرولتاریہ کو آنے والی لڑائی کے لیے اپنی طاقتوں کو تیار کرنا ہے۔ اس دوران متحد اور منظم سرمایہ داری پرولتاریہ کی توجہ جدوجہد سے ہٹانے کے لئے کامیاب کوششیں کر سکتی ہے مگر پرولتاریہ کے لئے ضروری ہے، وہ ایک لمبے عرصہ تک انتظار کرے۔ اس بہت اہم لڑائی میں بیس سال ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتے لیکن اس دوران ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ ہمیں سال کا سفر ایک دن میں طے ہو جائے گا“
فیضؔ کارل مارکس کے فلسفہ سے لگاؤ اور اس کا شاعرانہ اظہار مسلسل جاری رہا —مانگاتو سب کے لئے انصاف مانگا— کبھی بلند بانگ لہجے میں:
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں تو بے کس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے
کبھی دھیمے انداز میں
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اس سارے کاروبار کے بیچوں بیچ ناکامیاں بھی ہوئیں:
پھر پھر میرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں
شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں
پھر نکل آئے ہوسناکوں کے رقضاں طائفے
درد مندِ عشق پر ٹھٹھے لگانے کے لئے
گھبرائے نہیں کہ بقول لینن ”انقلابی عمل میں شکست ایک بہت کم تر برائی ہے۔ بڑی برائی یہ ہے کہ ہم اپنا مورچہ چھوڑ دیں“۔
مصنف نے سوچا اور کہا:
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
کھیتی کے کونوں کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر اگلی رُت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے
اور دلاسہ دیا:
زخم بھر جائے گا
غم نہ کر غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر غم نہ کر
ابر کھل جائے گا
رات ڈھل جائے گی
رُت بدل جائے گی
غم نہ کر غم نہ کر
اس یقین کے ساتھ کہ
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
پچھلا سال ہمارے ملک میں تحریکوں، جلسے جلوسوں، مباحثوں کا ایک متحرک سلسلہ تھا اور فیضؔ اس عوامی ابھار میں پوری طرح شریک رہے۔ فیض نے کہا تھا:
شائد اپنا بھی کوئی بہت حدی خواں ہو کر
ساتھ جائے گا میرے یار جدھر جائیں گے
تو سب نے دیکھا کہ فیضؔ کی نظمیں اور شعر ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘، ’آج بازار میں پا بجولاں چلو‘، ’اور کچھ روز میری جان فقط چند ہی روز‘، ’ہم دیکھیں گے‘، ’اور یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں نہیں‘ — عوام کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر، احتجاجی مظاہروں میں، ٹیلی ویژن گفتگوؤں میں حدی خواں بن کر سفر کرتے رہے۔
فیضؔ کو نگاہوں سے اوجھل ہوئے 23,22 سال ہوچکے ہیں مگر فیضؔ بغیر کسی سرپرستی کے عوام کے دلوں کی دھڑکنوں میں جیتا جاگتا ہے۔ فیضؔ کا مارکسی سوچ کے تانے بانے سے بُنا سرخ پرچم دلوں میں لہلہا رہا ہے۔
اب فیضؔ کی بات سنئے، غور کیجئے، عمل کیجئے:
”انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی چل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھر سکتی ہیں بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کہ یہ بے انداز خرمن، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لئے نہیں بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں اور عقل اور سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صَرف ہوں لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی ڈھانچے کی بنائیں ہوس، استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف برابری، آزادی اور اجتماعی خوشحالی میں اٹھائی جائیں۔ اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں۔ عملی کام ہے۔
ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد، جن کے اجارے جبر اور حسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے جنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔
سیاست و اخلاق، ادب و فن، روزمرہ زندگی غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔ آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی، اب بھی فتح یاب ہو کر رہے گی“۔
مارکسزم زندہ باد۔فیضؔ زندہ باد