گزشتہ چند دنوں سے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اکتوبر کے پہلے 20 ایام میں عسکریت پسندوں کے مبینہ حملوں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کئے جانے والے کریک ڈاؤن میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق مبینہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل عام کی اس تازہ لہر کے دوران غیر کشمیریوں بشمول تارکین وطن مزدوروں اور اقلیتی ہندو و سکھ برادریوں کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اتوار کے روز وادی کشمیر کے ضلع کولگا م میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے 3 غیر ریاستی مزدوروں پر فائرنگ کی، جس کی وجہ سے 2 مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ ایک زخمی ہوا۔ پیر کے روز بھی دو الگ الگ واقعات میں شمالی بھارت سے وادی میں آئے دو مزدور مارے گئے۔
گزشتہ ہفتے 2 اساتذہ (ایک ہندو اور ایک سکھ) کو سری نگر کے ایک سرکاری سکول کے اندر گولی مار دی گئی۔ مشتبہ عسکریت پسندوں نے 6 اکتوبر سے اب تک مجموعی طور پر 11 شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق یہ قتل دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے کئے ہیں، جسے وہ پاکستان میں قائم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کے مقامی جنگجوؤں پر مشتمل ایک محاذ کے طو رپر بیان کرتے ہیں۔
بھارت نے پاکستان پر وادی کشمیر میں مسلح بغاوت کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔ ٹی آر ایف اگست 2019ء میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی تنظیم نو کے تناظر میں ابھرا تھا۔ حالیہ حملوں میں چھوٹے ہتھیاروں (پستول وغیرہ) کا استعمال کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ٹی آر ایف نے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نہیں قتل کرتے بلکہ صرف ان لوگوں کو مارا جا رہا ہے جو بھارتی حکام کیلئے کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی سکیورٹی فورسز نے بھی ان واقعات کے بعد ایک وسیع کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونے والی متعدد کارروائیوں میں 13 باغیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے سری نگر میں 2 اساتذہ کے قتل کے بعد حکام نے 300 سے زائد افراد کو حراست میں لیا تھا، تاہم ان میں سے بیشتر کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارتی فوج کو جموں خطے کے جنگلوں میں بھی عسکریت پسندوں کا سامنا رہا ہے۔ اس جھڑپ میں بھارت کے 9 فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور حالیہ برسوں میں کسی بھی ایک آپریشن میں یہ فوجی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہلاکتوں کے واقعات نے آبادی کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ درجنوں ہندو اور غیر ریاستی مزدور وادی کشمیر سے بھاگ کر جموں اور دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔