قیصرعباس
تحفظ صحافت کی عالمی کمیٹی،سی پی جے نے کہاہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے زیراہتمام ہونے والی عالمی جمہوریت کانفرنس پوری دنیا میں صحافت اور میڈیا پر جاری قدغنوں کے خلاف آواز بلندکرے اورذرائع ابلاغ کے تحفظ کے لئے موثراقدامات کرے۔ تنظیم نے ایک بیان میں امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ آزادی صحافت کے بغیرجمہوریت کا تصور محض ایک خیال خام ہے اوریہ کانفرنس، جس میں عالمی رہنما بڑی تعدادمیں شرکت کررہے ہیں، اس سلسلے میں اہم اقدامات کرسکتی ہے۔
ڈیموکریسی سمٹ Democracy Summmit کے عنوان سے9-10 دسمبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا کے ایک سو سے ذیادہ رہنما، سرکاری مندوبین اورسول تنظیموں کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس کا مقصد عالمی پیمانے پر جمہوری روایات کو لاحق خطرات کا جائزہ لینا اور ان کے تدارک کے لئے اقدامات کرناہے۔ یہ کانفرنس امریکی صدربائیڈن کی ترجیحات میں شامل ہے جس میں امریکہ سمیت دنیا بھر میں جمہوری روایات کے استحکام پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ صدر جو بائیڈن کانفرنس کے افتتاحی اور اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔
پروگرام کے مطابق اس ورچوئل کانفرنس میں شامل مندوبین تین اجلاس میں میڈیا کی آزادی، اطلاعات کے مزاحمتی ذرائع او رآزاد میڈیا کے عنوانات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
سی پی جے کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹررابرٹ مہونی نے کہا ہے کہ”اس وقت جب اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی تکمیل کے دوران صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں اور انہیں جیلوں میں بند کیا جارہاہے، یہ کانفرنس صرف تصویریں کھچوانے کی تقریب نہیں ہونی چاہئے۔“ انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن نے یہ عالمی کانفرنس آج اس ماحول میں بلائی ہے جب صحافی بے انتہا دباؤ میں ہیں۔کانفرنس میں ان ملکوں کے صحافی بھی شامل ہیں جہاں میڈیا کو مختلف حربوں سے پابند رکھا جارہاہے اور ان پر حملے ہورہے ہیں۔
ان کے مطابق ”صدر بائیڈن کو چاہئے کہ کانفرنس کے ذریعے دنیا بھرمیں صحافیوں کے خلاف ہونے والی ذیادتیوں سے نجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کریں۔ آزاد پریس کے بغیر کوئی جمہوریت صحیح معنوں میں مستحکم نہیں ہوسکتی۔“
سی پی جے کے اس موقف کے پس منظر میں کانفرنس سے پہلے ایک افتتاحی تقریب میں بدھ کے دن امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ”میڈیا کی آزادی اور تحفظ“ کے عنوان پر ہونے والے ایک سیشن میں کہا کہ وہ مختلف ملکوں میں آزادی صحافت پر عائدقدغنوں پر فکرمند ہیں۔ ”صحافیوں کی تنظیمیں ا ور کئی اور ادارے اس سلسلے میں اقدامات کررہے ہیں مگر یہ سب وہ تنہا نہیں کرسکتے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے ہم حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آزاد میڈیا کے قیام کے لئے ٹھوس اقدامات کریں اور اس مقصد کے حصول کی راہ میں آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تشکیل دیں۔“
انہوں نے امریکہ اور دوسرے ملکوں میں میڈیا کی آزادی کے سلسلے میں چار اقدامات کا اعلان بھی کیا جن میں امریکہ میں صحافیوں کو قانونی طورپرتحفظ کے اقدامات کے علاوہ دیگر ملکوں میں مالی مشکلات کا شکارنجی میڈیا کی مالی مدد کے لئے فنڈنگ کے منصوبے شامل ہیں۔ان صحافیوں اور ذرائع ابلاغ جنہیں مقدمات کے ذریعے ہراساں کیا جارہاہے، مالی تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔امریکہ اخباری نمائندوں پر حملوں میں ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار اداکرے گاا ور ان حملوں کے خلاف ہر طریقے سے آواز بلند کرے گا۔
اس کانفرنس میں دنیا کے کئی ملکوں کے سرکاری اور غیر سرکاری مندوبین حصہ لے رہے ہیں لیکن کئی اہم ممالک کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ غیر حاضر اہم ملکوں میں روس، چین، مصر، ترکی، تھائی لینڈاورویت نام شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے صرف اسرائیل اور عراق ہی کانفرنس میں شامل کئے گئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے چار ملک، انڈیا، پاکستان، نیپال اور مالدیپ بھی اس کانفرنس میں شریک ہوں گے جب کہ پاکستان کی معروف سماجی کارکن حنا جیلانی بھی کانفرنس کے ایک سیشن سے خطاب کررہی ہیں۔وہ کانفرنس کے دوسرے دن ”جمہوری اداروں کا تحفظ، انتخابات، قانون کی پاسداری اور مزاحمتی اطلاعات“ پر ایک سیشن میں تقریر کریں گی۔
کانفرنس میں انسانی حقوق، انتخابات کی شفافیت، نجی ذرائع ابلاغ، مالی مسائل، ڈیجیٹل میڈیا، خواتین کے حقوق، ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، سیاسی قیدیوں، مالی بدعنوانی، جمہوری اداروں کا استحکام، آمریت اور دوسرے موضاعات پر کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، دانشور اور محققین خیالات کا اظہار کریں گے۔
جمہوریت کے استحکام کے لئے ہونے والی اس کانفرنس کے تین مقاصد بیان کئے گئے ہیں: آمریت کی روک تھام، کرپشن کے خلاف جنگ اورانسانی حقوق کا احترام۔ عالمی پیمانے پر ان مقاصدکے حصول کے لئے ضروری تھا کہ ان ملکوں کو بھی مدعو کیا جاتا جہاں جمہوری اقدار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس طرح کم ازکم اس تاثر کو کم کیا جاسکتا تھا کہ امریکہ ملکی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جمہوریت کے استحکام اور انسانی حقوق کے لئے واقعی سنجیدہ ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔