لاہور (جدوجہد رپورٹ) سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ایک مرتبہ پھر دسیوں ہزار افراد سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوریت کے حق میں احتجاج کیا۔ یہ احتجاجی ریلی طاقتور آمر عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹانے والی احتجاجی تحریک کے 3 سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقد کی گئی تھی۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق اتوار کے روز مظاہرین دارالحکومت خرطوم میں ریپبلکن محل کے قریب پہنچ گئے تھے، جب سکیورٹی فورسز نے ہجوم پر آنسو گیس کی فائرنگ شروع کر دی۔ مظاہرین رواں سال 25 اکتوبر کو اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی آمر جنرل عبدالفتاح البرہان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
یاد رہے کہ فوجی قیادت نے معزول سویلین وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو کئی ہفتوں کی حراست کے بعد 21 نومبر کو رہا کر کے عہدے پر بحال کر دیا تھا۔ تاہم فوجی قیادت سے معاہدہ کے تحت دوبارہ اقتدار میں آنے کے اقدام کی وجہ سے عبداللہ حمدوک کے حامیوں کو ان کے خلاف کر دیا۔ جمہوریت پسند تحریک کے حامیوں نے عبداللہ حمدوک کے اس اقدام کو مسترد کر دیا تھا۔
دوسری طرف عبداللہ حمدوک کا کہنا تھا کہ وہ مزید خونریزی سے بچنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے اس معاہدہ کی حامی بھری۔
تاہم تحریک کے منتظمین نے عبداللہ حمدوک کے تمام جواز مسترد کرتے ہوئے ’کوئی گفت و شنید نہیں، کوئی شراکت داری اور کوئی قانونی جواز نہیں‘ کے نعرے سے جواب دیا تھا۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں فوجی قیادت کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے خلاف تحریک کے دوران ملک بھر میں کم از کم 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
اتوار کے روز حکام نے دارالحکومت خرطوم کوجڑواں شہر اومدرمان سے ملانے والے پلوں کو بند کر دیا تھا، لیکن اس سب کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔
3 سال قبل سوڈان میں تحریک کے نتیجے میں عمر البشیر کی معزولی کے بعدایک مشترکہ فوجی و سویلین عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا، تاہم اکتوبر میں جنرل عبدالفتح البرہان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی وجہ سے یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔ معیشت اور سیاست پر فوج نے مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ سوڈان کی فوج منافع بخش کمپنیوں پر غلبہ رکھتی ہے اور زراعت سے لیکر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں تک ہر چیز میں مہارت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ ریاست کے 80 فیصد وسائل وزارت خزانہ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔
دوسری طرف سوڈان کے دورافتادہ علاقوں میں بھی تنازعات دوبارہ جنم لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اہم باغی گروپوں کے ساتھ وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کی قیادت میں ہونے والے امن معاہدہ کے بعدجو تنازعہ کسی حد تک کم ہوا تھا، وہ دوبارہ سے بھڑک اٹھا ہے اور گزشتہ 2 ماہ کے دوران نسلی جھڑپوں میں تقریباً 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔