تاریخ

پنجاب میں جبری ہجرتیں اور کسان تحریک کی تباہی

ڈاکٹر مظہر عباس

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پنجاب میں انیسویں اور بیسویں صدی میں چار بڑی جبری ہجرتیں ہوئی ہیں جنھوں نے نہ صرف لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پہ مجبور کیا بلکہ زمینداری سے متعلق تنازعات کو بھی جنم دیا۔

وہ چار بڑی ہجرتیں مندرجہ ذیل ہیں: پہلی، کینال کالونیوں کی برطانوی پالیسی کے نتیجے میں (1885-1940ء)؛ دوسری، 1947ء میں پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں؛ تیسری، سندھ میں پنجابی کسانوں کو زمین کی الاٹمنٹ کے نتیجے میں اور چوتھی، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت (1972ء تا 1977ء) میں خلیجی ممالک کو لیبر کی برآمد گی کے نتیجے میں۔ ان جبری ہجرتوں کے مجموعی اثر نے پنجاب میں کسانوں کی تحریک اور جدوجہد کو کمزور کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

پنجاب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی پہلی جبری ہجرت اور آباد کاری برطانوی پالیسی ’کینال کالونی‘ کے نتیجے میں ہوئی۔ اس پالیسی کے تحت انگریزوں نے 1885ء اور 1940ء کے درمیان نہریں کھود کر نو کینال کالونیاں (تمام کی تمام مغربی پنجاب میں) آباد کیں۔ ان نہروں کی کھدائی کے نتیجے میں پینتالیس لاکھ ہیکٹر بنجر اور غیر آباد زمین کو آباد کر کے قابل کاشت بنایا گیا۔

ہجرت اور آباد کاری کا آغاز 1890ء کی دہائی میں چناب کینال کالونی کے افتتاح سے ہوا۔ اس کے لئے انگریزوں نے وسطی اور مشرقی پنجاب کے ان کسان گھرانوں اور گروہوں کا انتخاب کیا جو کاشتکاری کے میدان میں مضبوط اور قدرتی کاشت کاروں کے طور پر بہترین شہرت کے حامل تھے اور ان کے کھیتوں کی پیداوار باقی کسان گھرانوں اور گروہوں کی نسبت زیادہ تھی۔ ان مہاجروں کو ’آبادکار (نو آبادیاتی)‘ کہا گیا جب کہ چناب کینال کالونی میں پہلے سے موجود یارہائش پذیر لوگوں کو ’مقامی‘ کہا گیا۔ مشرقی اور وسطی پنجاب سے کسانوں کی اس نقل مکانی نے کینال کالونی اضلاع کی ڈیموگرافی کو یکسر تبدیل کر دیا اور نہ صرف مقامی چرواہا آبادی کو اکثریت سے اقلیت میں بدلا بلکہ ان کی پسماندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔

انگریز ان کسانوں کو مغربی پنجاب میں اس لئے لائے تھے تاکہ زرعی پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔ اسی لئے نقل مکانی کر کے آنے والے کسانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بٹائی پر زمین کی کاشت کریں۔ ان تارکین وطن کو زمینوں کی الاٹمنٹ کے علاوہ کچھ زمینیں مقامی چرواہا برادری کے لئے بھی مختص کی گئی تھیں۔ مزید برآں، ہندوستان میں برطانوی حکومت نے وسطی اور مشرقی پنجاب کے کچھ لوگوں کو کینال کالونیوں میں لینڈ ریوینیو کا تخمینہ لگانے کے لیے بھی منتخب کیا، اور اس کے بدلے میں انھیں زمینوں سے نوازا۔

انگریزوں نے کسانوں اور لینڈ ریوینیو ممبران (افسران) کے ساتھ ساتھ زمینداروں کو بھی نقل مکانی کرائی۔ بارہ ماہی آبپاشی سے قابل کاشت بننے والی نئی زمینوں نے زمینداروں کی پہلے سے نمایاں معاشی طاقت کو مزید بڑھا دیا۔ نوآبادیات یا تارکین وطن (کسانوں اور زمینداروں، دونوں) کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اپنے نوکروں (کمیوں یا گاؤں کے کاریگروں) اور مزدوروں کو بھی اپنے ساتھ لائیں کیوں کہ برطانوی یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وسطی اور مشرقی پنجاب میں موجودہ (سماجی اور معاشی) درجہ بندی کو برقرار رکھنے اور کینال کالونیوں میں ان کی پیوند کاری کے لیے یہ ضروری تھا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ چھوٹے درجے کے کسان پہلے سے قائم شدہ سماجی اور معاشی نظام کو چیلنج نہیں کریں گے۔ غیر زرعی کمیوں اور اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ بے حسی اس سماجی درجہ بندی کی پائیداری کے لیے ایک بنیادی عمارت تھی۔

کینال کالونی اضلاع پنجاب کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے ان کینال کالونی اضلاع کے کسان دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے: آبادکار اور مقامی۔ اسی طرح آباد کار کسان (جو کہ کسی ایک علاقہ، گاؤں، ذات، گروہ یا خاندان سے نہ تھے) بھی دو گروہوں میں منقسم ہو گئے: ریاستی کسان (جو کہ حکومت یا ریاست کی زمین پر کاشتکاری کرتے تھے) اور نجی کسان (جو کہ زمینداروں کی زمینوں پر کاشتکاری کرتے تھے)۔ مزید براں، کسان موروثی اور غیر موروثی میں تقسیم ہو گئے۔ علاوہ ازیں وہ ذات اور طبقے کی بنیاد پر بھی بٹ گئے۔

پنجاب کے اندر دوسری جبری ہجرت 1947ء میں اس وقت ہوئی جب پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: مشرقی پنجاب (ہندوستانی پنجاب) اور مغربی پنجاب (پاکستانی پنجاب)۔ نتیجتاً لاکھوں لوگوں کو سرحد کے دونوں طرف ہجرت کرنا پڑی جس کی وجہ سے کسان قیادت میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا اور مغربی پنجاب میں کسانوں کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مزید یہ کہ اس نے مہاجرین کی بحالی کی سیاست اور استحصال کے امکانات کو بھی کھول دیاتاکہ کسانوں میں تقسیم پیدا کی جا سکے۔

وزارت پناہ گزین اور بحالی کی 1948ء کی مردم شماری کے مطابق ایک اندازے کے مطابق 45 لاکھ ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان سے ہندوستان ہجرت کی اور 55 لاکھ سے زیادہ مسلمان صرف پاکستانی پنجاب منتقل ہوئے۔ یہ مہاجر مغربی پنجاب کی آبادی کا 25.6 فیصد تھے۔ ان 55 لاکھ پناہ گزینوں میں سے 03 لاکھ سے زیادہ کو تین کینال کالونی اضلاع لائل پور (اب فیصل آباد)، منٹگمری (اب ساہیوال)، اور ملتان میں آباد کیا گیا۔ یہ مہاجرین ان اضلاع کی بالترتیب 39، 46 اور 31 فیصد آبادی پر مشتمل تھے۔

کینال کالونی اضلاع کی آبادی، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، مختلف بنیادوں پر منقسم تھی، اس جبری ہجرت کے نتیجے میں مزید بنیادوں پر تقسیم ہو گئی۔ مثال کے طور پر کینال کالونی اضلاع کی آباد کاری سے پہلے وہاں موجود لوگ ’مقامی‘ اور ان اضلاع کو آباد کرنے کے لئے وسطی اور مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے آباد کار ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑے کرنے لگے جب کہ ان علاقوں میں لڑائیوں اور جھڑپوں میں ایک نیا اور اہم موڑ اس وقت آیا جب ایک اور گروہ، مہاجر (مشرقی پنجاب سے آ کر)، ان اضلاع میں آباد ہوا۔ یہ تینوں گروہ مختلف معاملات پر ایک دوسرے کے خلاف لڑائی جھگڑوں اور جھڑپوں میں اکثر مصروف رہنے لگے۔ مثال کے طور پر، کئی عشروں سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے والے آباد کاروں اور مقامیوں نے کچھ تنازعات پر مہاجرین کے خلاف آپس میں ہاتھ ملالیا۔ علاوہ ازیں، اس ہجرت اور آبادکاری نے کسانوں کو دعویداروں اور غیر دعویداروں میں بھی تقسیم کر دیا جس سے کسانوں کی تحریک اور کمزور ہو گئی۔

مجموعی طور پر مندرجہ بالا دوہجرتوں نے نہ صرف مغربی پنجاب کی آبادی کو تبدیل کیا بلکہ خطے کی سماجیات، معاشیات اور سیاست کو بھی کافی حد تک متاثر کیا۔ در حقیقت، بہت سے ہندو اور سکھ تارکین وطن جو پہلی ہجرت میں کینال کالونیوں میں آباد ہوئے تھے بالآخر تقسیم پنجاب کے نتیجے میں مجبوراً مغربی سے مشرقی پنجاب ہجرت کر گئے۔ ادہران خالی کیے گئے علاقوں پر آ کر آباد ہونے والے مسلمان نسلی طور پر یکساں نہیں تھے۔ اس طرح دونوں ہجرتوں نے مقامی دیہی آبادی (خصوصاً کسانوں) کو نہ صرف تقسیم بلکہ کمزور اورپسماندہ بھی کر دیا۔

تیسری بڑی نقل مکانی اس وقت ہوئی جب پنجابی کسانوں، فوج کے افسران اور بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد سندھ چلی گئی جہاں انھیں وہ زمینیں الاٹ کی گئیں جو نوآبادیاتی حکومت کی طرف سے سکھر بیراج کی تعمیر کے نتیجے میں کاشت کے لیے موزوں بنائی گئی تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستانی حکومتوں نے زمینیں الاٹ کرنے والی نو آبادیاتی حکومت کی پالیسیاں جاری رکھیں۔ انہوں نے کوٹری اور گڈو بیراج تعمیر کیے تاکہ بنجر زمین کے بڑے حصوں کو کاشت شدہ زمین میں تبدیل کیا جائے۔ ان نئی سیراب شدہ زمینوں کا ایک بڑا حصہ پنجابی کسانوں، فوج کے افسران اور بیوروکریٹس کو الاٹ کیا گیا تھا۔ اس طرح بڑے پیمانے پر غیر حاضر زمینداروں کا ایک ایسا طبقہ تشکیل دیا گیا جنھوں نے مقامی کسانوں کی نسبت پنجابی کسانوں (جن کو وہ بہتر طریقے سے نہ صرف قابو کر سکتے تھے بلکہ ان پر انحصار بھی کر سکتے تھے) کو ترجیح دی۔ دیگر ہجرتوں کی طرح پنجابی کسانوں کی سندھ میں نقل مکانی نے بھی کسانوں کی مزاحمت کو متاثر کیا۔

پنجاب سے سندھ کی طرف اس نقل مکانی کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔ 1955ء میں کوٹری بیراج کی تعمیر کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ سرکاری بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا گیا۔ اس نئی سیراب شدہ زمین کی الاٹمنٹ کی ذمہ داری فوجی افسران پر مشتمل کمیٹی کو سونپی گئی۔ 322,680 ایکڑ میں سے 100,000 ایکڑ فوجی افسران کو الاٹ کیے گئے۔ ان میں اکثریت پنجابی تھے، جب کہ پشتون دوسرا اہم گروہ تھا۔ اسی طرح بڑی تعداد میں پنجاب کے کسانوں نے عوامی نیلامی کے ذریعے فروخت کی گئی زمین خریدی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سندھ میں زمین پنجاب کے مقابلے میں بہت سستی تھی، جبکہ پنجاب کے کسان سندھی کسانوں کی نسبت زیادہ خوشحال تھے۔

سکھر بیراج کی طرح 1965ء میں گڈو بیراج کے کھلنے سے قابل کاشت بنائی جانے والی زمینوں کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ یہاں تقریباً تمام نئی سیراب شدہ زمین (600,00 ایکڑ) فوجی اور سول افسران کو الاٹ کی گئی یا پنجاب کے کسانوں کو مضحکہ خیز کم قیمتوں پر فروخت کی گئی۔

بعض مبصرین کا تجزیہ ہے کہ سندھ کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ساتھ زمیندار اشرافیہ نے بھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان پالیسیوں کو کامیاب بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر وہ نہیں چاہتے تھے کہ سندھی ہاری (کاشتکار) زمین کے مالک بنیں اور خود مختار ہو جائیں (بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہاری ہمیشہ ان پر انحصار کریں)۔ سندھی جاگیرداروں نے اپنے خلاف ہونے والی ہاریوں کی جدوجہد کو پنجابی جاگیرداروں اور کسانوں کی طرف موڑ کر ان پر اپنا کنٹرول اور اثر و رسوخ برقرار رکھا۔ اس نقطے پر البتہ مزید تحقیق اور تنقیدی تجزئیے کی ضرورت ہے۔

1981ء کی صوبہ پنجاب کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 849,043 افراد دوسرے صوبوں میں نقل مکانی کر کے گئے تھے۔ ان میں سے 74.4 فیصد سندھ میں، 11.7 خیبر پختونخواہ میں، 6.6 فیصد بلوچستان میں اور 7.3 فیصد اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوئے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں سے 87.6 فیصد صوبے کے دیہی علاقوں اور 12.4 فیصد شہری علاقوں سے تھے۔

ہجرت کی یہ لہر بھٹو کے دور میں اس وقت واقع ہوئی جب اس نے افرادی قوت کی وزارت بنائی اور لاکھوں ناخواندہ اور غریب لوگوں (بنیادی طور پر دیہی پنجاب سے کسانوں) کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمد کیا۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے تعمیراتی شعبے میں محنت و مزدوری کی۔ افرادی قوت کی وزارت نے انھیں ویزا اور ورک پرمٹ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ترسیلات زر کی مدد کی تاکہ ان تارکین وطن کے خاندانوں کو خوشحال بنایا جا سکے۔

مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق 735,285 افراد بیرون ملک گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی بیرون ملک نقل مکانی کی وجہ سے کسان تحریک میں قیادت اور افرادی قوت کا خلا پیدا ہو گیا۔ علاوہ ازیں، ہجرت کرنے والی مزدور قوت میں بہت سے (کاریگر، کسان، اور اجرت پر کام کرنے والے مزدور) پنجاب کسان تحریک کی بنیادی طاقت تھے۔ اس ہجرت کے نتیجے میں 1970ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان کانفرنس کے بدلے میں پیدا ہونے والا جوش و خروش کم ہونے لگا اور تحریک اپنا اثر و رسوخ کھونے لگی۔

بیرون ملک نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے لئے سب سے زیادہ فعال وقت 1970ء کی دہائی تھی کیونکہ اس وقت خلیج میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں (بنیادی طور پر آمدنی میں اضافے کے نتیجے میں) کے لیے سستے مزدوروں کی مانگ بڑھ گئی تھی۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت کی دوسری اہم وجوہات بہتر اجرت کے ساتھ روزگار کی تلاش اور بے روزگاری کے دباؤ کو سنبھالنے، غربت کو کم کرنے اور زرمبادلہ کمانے کے لیے حکومت پاکستان کی بیرون ملک ملازمت کو فروغ دینے کی دانستہ کوششیں ہو سکتی ہیں۔

بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1977 اور 1983 کے درمیان 131,100 مزدور سالانہ (اوسطاً) خلیجی ممالک میں ہجرت کر کے گئے۔ 1981ء میں مشرق وسطیٰ میں تقریباً دس لاکھ رجسٹرڈ پاکستانی مزدور تھے۔ ان تارکین وطن میں سے تقریباً 41.87 فیصد غیر ہنر مند مزدور تھے۔ باقی ماندہ ہنرمند افراد میں ڈرائیور، الیکٹریشن، بڑھئی، ویلڈر، ٹیکنیشن، پلمبر، سٹیل فکسرز، پینٹر اور سیلز ورکرز وغیرہ شامل تھے۔

1970ء اور 2004ء کے درمیان باہر جانے والی کل افرادی قوت کا تقریباً 45.5 فیصد مشرق وسطیٰ کی طرف ہجرت کر کے گیا۔ ان میں سے 79 فیصد سعودی عرب، 15 فیصد متحدہ عرب امارات، تین فیصد عمان، ایک فیصد قطر اور ایک فیصد بحرین گئے۔ زیادہ تر تارکین وطن دیہی علاقوں خصوصاً پنجاب کے درمیانے اور غریب کسان گھرانوں سے تھے جہاں زمین ہی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔

زمین کی کھیتی زیادہ تر بیلوں یا دوسرے جانوروں کے ذریعے کی جاتی تھی اور کیمیائی کھادوں اور بہتر بیجوں کا استعمال بہت کم تھا۔ اس کے علاوہ، غیر کاشتکاری کی سرگرمیاں چند دکانوں اور کاریگروں تک محدود تھیں، نقل و حمل کی سہولیات ناکافی تھیں اور اکثریت گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے۔

اس ہجرت اور ترسیلات زر کے نتیجے میں سماجی و معاشی حالات اور معیار زندگی میں کافی حد تک بہتری آئی۔ بہت سے کسانوں نے کاشت کے لیے ٹریکٹر خریدے، فصلوں کے پیٹرن تجارتی کاشتکاری میں تبدیل ہوئے اور چھوٹے پیمانے پر زرعی صنعت (پولٹری فارم، کیڑے مار ادویات اور بیجوں کی دکانیں، اور پھل اور سبزیوں کے باغات) لگنا شروع ہو گئی۔ نتیجتاً بہت سے دوسرے کسانوں نے متاثر ہو کر ہجرت کے اس انداز کو اپنایا۔

اگر پنجاب کسان تحریک کی اصل طاقت کسان تھا تو اس کی کمزوری بھی یہی حلقہ تھا۔ نازک مرحلوں پر چار جبری ہجرتوں نے اس گروہ کو تقسیم کیا۔ کینال کالونیوں کی طرف ہجرت نے مقامی اور آبادکاروں میں تقسیم پیدا کر دی۔ پنجاب کی تقسیم نے قیادت کاخلا پیدا کیا جب فعال ارکان مشرقی پنجاب ہجرت کر گئے۔ سندھ کی طرف ہجرت نے گروہ کو مزید منتشر کیا۔ جب کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ہجرت نے پنجاب کسان تحریک کی طاقت کو کچل کے رکھ دیا۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔