تاریخ

لال خان تم نہیں رہے پر یہ لڑائی تو ہے!

التمش تصدق

کامریڈ لال خان کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت چکے ہیں، لیکن آج بھی لال خان کا انقلابی کام نہ صرف پاکستان میں بلکہ ساری دنیا میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی رہنمائی کر رہا ہے اور اس وقت تک رہنمائی کرتا رہے گا، جب تک محنت کش اس نظام کو انقلاب کے ذریعے شکست دے کر اپنی تقدیر کے خود مالک نہیں بن جاتے۔

انقلاب روس کے معمار اور سرخ فوج کے سالار لیون ٹراٹسکی لکھتے ہیں ”جب تاریخی ارتقا کا دھارا ترقی کرتا ہے تو عوامی سوچ ہوشیار، بے باک اور ہوش مند ہو جاتی ہے۔ وہ حقائق کو فوراً پرکھ لیتی ہے اور جب سیاسی دھارا زوال پذیر ہوتا ہے تو عوامی سوچ بے ہودگی میں غرق ہوجاتی ہے…حماقت اور بے ہودگی ڈھٹائی سے آگے بڑھتی ہے، اپنے دانت دکھاتی ہے…اپنے آپ کو مختار کل سمجھ کر وہ اپنے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے۔“

کامریڈ لال خان نے انقلابی جدوجہد کو ایسے عہد میں آگے بڑھایا جب 1968-69ء کے عالمی انقلابی ابھار کے بعد محنت کشوں کی تحریک پسپائی کا شکار ہو چکی تھی۔ ہر طرف رد انقلابی قوتوں کی ننگی جارحیت جاری تھی۔ امریکی سامراج کی سرپرستی میں فوجی آمریتوں اور فاشسٹ قوتوں کو سماج پر مسلط کر کے قتل عام اور تشدد کے ذریعے محنت کشوں سے انقلاب کا انتقام لیا جا رہا تھا۔ انقلابیوں کے لیے یہ زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام نے محنت کشوں کی امید کی آخری کرن کو بھی ختم کر دیا تھا۔

ایسے وقت میں بھی جب ہر طرف یاس، ناامیدی، مایوسی، تاریکی، بے بسی اور بے کسی تھی، جب لوگوں نے بڑا سوچنا چھوڑ دیا تھا، جب لوگوں نے قلت، مانگ، محرمیوں اور مجبوریوں سے پاک غیر طبقاتی سماج کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا تھا، انسان کے بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والے کو پاگل سمجھا جاتا تھا، جب سرمائے کی حاکمیت اور اس نظام کے جبر اور استحصال کو انسانی مقدر قرار دیا گیا، جب سوشلزم کی ناکامی کے امریکی سامراج کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر بڑے بڑے انقلابی سامراج کے آگے سجدہ ریز ہو گئے، جب انقلابی سوشلزم کے ذریعے نظام کے خاتمے کو دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا اور اصلاحات کے ذریعے نظام کو ٹھیک کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں، ایسے وقت میں بھی کچھ انقلابی تھے، جنہوں نے سرمایہ داری کے جبر و استحصال اور طبقاتی غلامی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جنہوں نے غربت، بیروزگاری، لا علاجی اور ذلت کو انسانی مقدر ماننے سے انکار کیا، جنہیں ریاستی جبر اور سامراجی پروپیگنڈہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹانے میں ناکام رہا۔ وہ تنہا اس سامراجی یلغار کا مقابلہ کرتے رہے، قید و بند کی صوبتیں، تشدد، جلا وطنی اور مذہبی جنونیوں کی وحشت سمیت کوئی بھی حربہ انہیں اس نظام کے آگے ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ جن انقلابیوں نے اس نظام کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ان میں کامریڈ لال خان کا نام صف اؤل میں شمار ہوتا ہے۔ کامریڈ لال خان کہا کرتے تھے کہ ”ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی کیوں کے ہم شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔“

ہم کسی بھی شخص کی ذات کا تجزیہ اس کے عہد سے کاٹ کر نہیں کر سکتے۔ کامریڈ لال خان نے اپنے انقلابی سفر کا آغاز اس وقت کیا، جب 68-69ء میں طلبہ اور محنت کشوں کی عالمی تحریک نے کروڑوں مزدوروں اور نوجوانوں کو تاریخ کے دھارے میں اپنی تقدیریں بدلنے کے لیے شامل کیا، جب نوجوانوں اور محنت کشوں میں یہ احساس بیدار ہوا کہ ہم ہی اصل قوت ہیں جو اس سماج کو چلا رہے ہیں اور اسے بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان سمیت ساری دنیا میں بہت سے ملکوں میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے فیکٹریوں، کارخانوں، سکولوں، کالجوں اور زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ سابق بائیں بازو کی قیادت سٹالنسٹ روس اور چینی افسر شاہی کے غلط نظریات کی اندھی تقلید اور سماج کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے انقلاب کے کردار کو سمجھنے سے ہی قاصر رہی۔ مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات کی وجہ سے یہ قیادت محنت کشوں سے کٹ گئی۔ جس کے نتیجے میں جنم لینے والے خلا کی وجہ سے پاپولر قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ اس قیادت نے سوشلسٹ پروگرام پیش کیا، جسے بڑے پیمانے پر محنت کشوں کی حمایت ملی لیکن وہ انقلاب کو کامیاب کرنے کی صلاحیت سے عاری تھی اور نظریاتی ابہام کا شکار تھی۔

انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوانوں اور محنت کشوں کی تمام قربانیاں رائیگاں گئیں۔ تحریک کی ناکامی کے بعد سماج میں بڑے پیمانے پر مایوسی پھیل گئی اور حکمران طبقے کی نفسیات دوبارہ حاوی ہو گئی۔ لال خان اور ان کے ساتھیوں نے تحریک کی پسپائی کے نتیجے میں مایوس ہونے کی بجائے، اس ناکامی سے بہت سے اسباق حاصل کیے۔ سب سے اہم سبق یہ تھا کوئی بھی فرد، چاہے وہ کتنی ہی صلاحیتوں کا مالک کیوں نہ ہو، تنہا سماج کو نہیں بدل سکتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے لیے انقلابی پارٹی کا ہونا ضروری ہے اور انقلابی پارٹی کی تعمیر درست نظریات کے بغیر ناممکن ہے۔ انقلابی پارٹی چند لیڈروں پر مشتمل نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے ہزاروں تربیت یافتہ ’کیڈر‘درکار ہیں۔

تاریخ کے انہی اسباق کی بنیاد پر لال خان اور ان کے ساتھیوں نے نئی جنگ کی تیاری کاآغاز کیا۔ مارکسی نظریات کی بنیاد پر برصغیر کے سماج کی تشریح کی، تاریخ پر برطانوی سامراج اور مقامی حکمران طبقے کی طرف سے ڈالی گئی دھول کو صاف کیا اور لیون ٹراٹسکی کے انقلاب مسلسل کے نظریے کی بنیاد پر پسماندہ ممالک میں انقلاب کے کردار کی وضاحت کی۔ انہوں نے انقلابی نظریات کی بنیاد پر دنیا کے مختلف ملکوں میں نوجوان نسل کی تربیت کا آغاز کیا۔ اس جدوجہد کے دوران دشمنوں کے حملے اور دوستوں کی غداریاں لال خان کے حوصلے کو پست نہیں کر سکیں۔ انہوں نے محنت کشوں کی فتح اور انسان کے کمیونسٹ مستقبل کے لیے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، اس کی فتح پر آخری سانس تک ان کو یقین تھا۔

کامریڈ لال خان کے فکری اور عملی کام کو کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ کامریڈ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی تعمیر کی گئی سرخ انقلابیوں پر مشتمل فوج موجود ہے، جو اگر درست نظریات اور حکمت عملی پر کاربند رہی تو آنے والے وقت میں شروع ہونے والی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن جب تک طبقات موجود ہیں، امیر اور غریب کی تفریق موجود ہے، یہ لڑائی تو ہے۔ ان کی زندگی کا پیغام ہے کہ طبقاتی جنگ کی تیاری کو تیز کرو، انقلابی نظریات کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاؤ، ایک فیصد طبقے کی حاکمیت کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کوسرمائے کی ان زنجیروں سے آزاد کرو۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔