لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں ہاؤسنگ کا بڑھتاہوا بحران زرعی زمینوں کو تیزی سے ختم کر رہا ہے، جس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں ملک میں غذائی قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ترکی کے خبر رساں ادارے ’انادولوایجنسی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کی ضروریات نے پہلے ہی شمال مشرقی پنجاب اور جنوبی سندھ، جنہیں ملک میں خوراک کی پیداوارکا گڑھ سمجھا جاتا ہے، میں زرخیز زمینوں کے بڑے حصے کو کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
فیصل آباد شہر سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پرایک گیٹڈ ہاؤسنگ سکیم کے باہر کھڑے ہو کر یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ جدید پلازے زرعی کھیتوں پر بنائے گئے ہیں، جن میں چند سال پہلے تک گندم، گنا اور دیگر موسمی فصلیں اور سبزیاں پیدا ہوتی تھیں۔
گاؤں کے ایک رہائشی ندیم شاہد کے مطابق ”حالیہ برسوں میں سیکڑوں کسانوں نے اپنی کھیتوں کی زمینیں رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز کو فروخت کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں شہر اور اس کے آس پاس یہ پوش عمارتیں بن گئی ہیں۔“
انکا کہنا تھا کہ ’رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز کسانوں کو مارکیٹ کی قیمتوں سے تین گنا زیادہ رقم کی پیشکش کر رہے ہیں، جس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب زرعی زمینیں بیچنے کے بعد نہ صرف ہم جیسے لوگ بلکہ کسان خود بھی بازار سے گندم، آٹا اور سبزیاں خریدتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ باقی کسان کب تک مزاحمت کریں گے؟‘
رپورٹ کے مطابق ملک کے درالحکومت اسلام آباد، تجارتی دارالحکومت کراچی، ثقافتی مرکز لاہور اور دیگر شہروں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے، جہاں کبھی سرسبز و شاداب میدانوں اور جنگلوں کے بڑے حصے ہوتے تھے اب ہاؤسنگ سکیموں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
ایک غیر سرکاری زرعی مشاورتی اور تحقیقی تنظیم کسان بورڈ آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل شوکت علی چدھڑ کے مطابق ”صوبہ پنجاب میں تقریباً 20 سے 30 فیصد زرخیز زمین ہے، جو کہ ملک کی کل زمین کا 65 فیصد بنتی ہے۔ خوراک کی کل ضروریات کو صنعتی یونٹس اور ہاؤسنگ اسکیموں میں تبدیل کر دیاگیا ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”صرف لاہور میں 70 فیصد زرعی اراضی کو ہاؤسنگ اور صنعتی یونٹوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد گجرات کا نمبر ہے، جہاں یہ تناسب 60 فیصد ہے۔ لاہورمیں باقی 30 فیصد زرعی زمینیں صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر محفوظ ہیں کیونکہ وہ بھارتی سرحد کے قریب ہیں۔“
انکا مزید کہنا تھا کہ ”وسطی پنجاب کے دیگر زرعی اضلاع فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورا اور قصور وغیرہ میں 30 سے 40 فیصد زرعی زمین رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز اور صنعت کاروں کو فروخت کر دی گئی ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے شمالی اضلاع میں زمینوں پر قبضے کا تناسب بھی تسلی بخش ہے، جو اس وقت گندم، گنے اور کپاس کا 50 فیصد سے زیادہ پیدا کر رہا ہے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ”زرخیز زمین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فروخت اور کسانوں کیساتھ حکومت کا رویہ آنے والے سالوں میں خوراک کے سنگین مسائل کا باعث بنے گا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں زراعت اب منافع بخش کاروبار نہیں ہے، جہاں حکومتیں پورے زرعی شعبے کو فائدہ پہنچانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے چند لوگوں کی جیبیں بھرتی ہیں۔ حکومت یوکرین اور روس سے بہت زیادہ قیمتوں پر گندم درآمد کر رہی ہے لیکن مقامی کسانوں کو امدادی قیمت دینے کو تیار نہیں ہے۔ یہ کسانوں کی حوصلہ شکنی ہے، انہیں اپنی زمین بیچنے اور دوسرے کاروبار تلاش کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے شہری منصوبہ ساز عارف حسن اس سارے رجحان کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ”ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر کا ملک کے ہاؤسنگ کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ غریب یا کم آمدنی والے لوگوں کیلئے نہیں ہیں بلکہ ان امیروں کیلئے ہیں جو اپنے کالے دھن کو لانڈر کرنے یا سرمایہ کاری کے مقاصد کیلئے پلاٹ خریدنے کا بہترین طریقہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کے معاملے میں ذرائع آمدن کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائیگا۔
عارف حسن کا کہنا ہے کہ ”حکومت اگر ہاؤسنگ کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس غریبوں کیلئے یہاں تک کے بڑے شہروں میں بھی کم لاگت ہاؤسنگ اسکیمیں تیار کرنے کیلئے کافی زمین ہے۔ صرف کراچی میں حکومت کے پاس 4 ہزار ایکڑ اراضی ہے، جہاں وہ غریبوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کم قیمت ہاؤسنگ سکیمیں تیار کر سکتی ہے، جو حقیقت میں اس کے مستحق بھی ہیں۔“
حال ہی میں شمال مشرقی ملتان میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کی تیاری کیلئے کاٹے گئے آم کے درختوں سے بھرے ٹرکوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس پر ماہرین اور شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ملتان کو کئی قسم کے مشہور پھلوں کی پیداوار کی وجہ سے پاکستان کا ’مینگو سٹی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
کراچی کے سائل سے 3 سمندری میل مغرب میں واقع جڑواں جزیروں بنڈال اور بندو پر نیا شہر بنانے کے منصوبے پر بھی ماحولیات کے ماہرین شدید تنقید کر رہے ہیں اور اس منصوبے کو علاقائی ماحولیاتی نظام کیلئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہیں۔ یہ مقام جنگلی حیات کیلئے ایک اہم جگہ ہونے کے علاوہ طوفانوں اور سونامیوں کے خلاف قدرتی رکاوٹ کا کام بھی کرتا ہے۔
تاہم حکومت ان جزیروں کو ایک شاندار آف شور ترقی میں تبدیل کرنے کیلئے ایک پل کے ذریعے کراچی کے ساحل سے جوڑنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ سب کام ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب وزیر اعظم (وقت) عمران خان کی حکومت ’بلین ٹری‘ منصوبے کا کریڈٹ لے رہی تھی، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی مسائل کو کم کرنا قرار دیا جا رہا تھا۔
ماہر ماحولیات شبینہ فراز کے مطابق ”یہ بہت خطرناک رجحان ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف قومی غذائی تحفظ بلکہ ماحول بھی متاثر ہو گا۔ غیر منصوبہ بند اربنائزیشن کی وجہ سے آلودگی اور سموگ پہلے ہی خطرناک حدوں کو چھو چکی ہے۔ جنگلات اور زرعی زمینوں پر مزید تعمیرات ہمیں ماحول کے لحاظ سے کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔“