لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی کے دستخط سے یہ پروڈکشن آرڈر 21 جون 2022ء کو جاری کیا گیا ہے۔ علی وزیر اب بجٹ سیشن کے آخری روز اسمبلی اجلاس میں شریک ہونگے۔
قومی اسمبلی کا 43 واں بجٹ سیشن 06 جون 2022ء کو شروع ہوا تھا، جو شیڈول کے مطابق 22 جون تک جاری رہنا ہے۔ بجٹ سیشن کے آغاز سے ہی علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ بالخصوص سپیکر قومی اسمبلی اور پیپلزپارٹی قیادت کو ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا، کیونکہ پیپلزپارٹی قیادت اپوزیشن میں ہوتے ہوئے علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر احتجاج ریکارڈ کرواتی رہی ہے اور چند مواقعوں پر بلاول بھٹو زرداری نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے تحریری درخواست کے علاوہ اسمبلی میں بات بھی کی۔
تاہم حکومت میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی کا اپنا سپیکر ہونے کے باوجود علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر اتحادی جماعتوں نے گریز کیا اوراسمبلی میں اس معاملہ پر خاموشی اختیار کی گئی۔
منگل کے روز رکن اسمبلی اور سربراہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ محسن داوڑ کی درخواست پر بالآخر سپیکر قومی اسمبلی نے علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
جاری کردہ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹکل 54 کی رو سے قومی اسمبلی کا اجلاس 6 جون سے طلب کر رکھا ہے، جو ابھی بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی رکن اسمبلی علی وزیر کی اس سیشن میں موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لہٰذا قومی اسمبلی رولز 108 کے تحت سپیکر اسمبلی نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو طلب کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے سیشن میں شریک ہوں۔
پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ علی وزیر آج بجٹ سیشن کے آخری روز کراچی سے اسلام آبادسیشن میں شرکت کرنے کیلئے آئیں گے۔
تاہم دوسری طرف پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر سپیکر قومی اسمبلی سمیت اتحادی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صارفین یہ کہہ رہے ہیں کہ اب بجٹ منظور کرنے کیلئے علی وزیر کے ووٹ کی ضرورت کے پیش نظر پروڈکشن آرڈر جاری کیا جا رہا ہے۔ بجٹ سیشن کے دوران علی وزیر کو اپنے علاقے کی نمائندگی کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ علی وزیر کو پیر کی شب خرابی صحت کے باعث کراچی جیل سے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم ابھی تک ان کی صحت کے حوالے سے کوئی معلومات منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ تاہم ابھی تک وہ ہسپتال میں ہی ہیں اور اجلاس میں شرکت مشکوک ہے۔
یاد رہے کہ علی وزیر گزشتہ 17 ماہ سے کراچی جیل میں قید ہیں۔ ان پر دفاعی اداروں اور شخصیات کے خلاف تقاریر کرنے، بغاوت، غداری اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت مختلف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ دو مقدمات میں سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کے باوجود انہیں ایک تیسرے مقدمہ میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
ٹرائل کے دوران ماضی کی طرح تاخیری حربوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں گزشتہ سماعت پر بھی جج کی غیر حاضری کے باعث سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔ ساتھ ہی ایک چوتھا مقدمہ بھی ان کے خلاف کھولنے کی تیاری مکمل کی گئی ہے، تیسرے مقدمہ میں درخواست ضمانت منظور ہونے پر انہیں اس چوتھے مقدمہ میں حراست میں رکھے جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ بنوں میں بھی ان کے خلاف اسی نوعیت کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی کے مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے کے بعد انہیں بنوں جیل منتقل کیا جا سکتا ہے۔