لاہور (جدوجہد رپورٹ) تعمیراتی اور مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب سے تباہ ہونے والے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی لاگت 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ یہ رقم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ملک کے 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے دو گنا ہے اور اس تعمیراتی عمل میں دو سال لگ سکتے ہیں۔
’عرب نیوز‘ کے مطابق مون سون کی ریکارڈ بارشوں نے پہلے سے ہی تباہ حال پاکستانی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ جون کے وسط سے شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی کیفیت نے بنیادی ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور 1500 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں، سیلاب سے فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
بدترین سیلاب نے 130835 کلومیٹر سڑکیں، 375 پل اور 1943978 مکانات کو تباہ کر دیا ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ان میں سے 778560 مکانات سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔
تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ مکانات، سڑکوں اور پلوں کی بحالی و تعمیر نو کیلئے مجموعی طور پر 2.735 ہزار ارب روپے (12.23 ارب ڈالر) خرچ کرنا ہونگے۔
کراچی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات سعید احمد مغل نے ایک مکان کی مرمت کی اوسط لاگت 9 لاکھ روپے، جبکہ مکمل تباہ شدہ مکان کی تعمیر نو کی لاگت کا تخمینہ 15 لاکھ روپے لگایا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ فی کلومیٹر سڑک کی لاگت 32 ملین روپے ہے اور ایک پل کی تعمیر پر موجودہ مارکیٹ ریٹ کی بنیاد پر 300 ملین روپے تک لاگت آئے گی۔ یہ تخمینہ جات اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں جاری اسی طرح کے مختلف منصوبوں کی ٹینڈر قیمتوں پر مبنی ہیں۔
موجودہ ٹینڈر قیمتوں کی بنیاد پر سادہ حساب سے کل لاگت کا تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ 114478 جزوی تباہ شدہ مکانات کی لاگت 1.030 ہزار روپے یا 4.6 ارب ڈالر ہو گی، جبکہ 778560 مکمل طور پر تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کی لاگت 1.167 ہزار روپے یا 4.6 ارب ڈالر ہو گی۔
سیلاب سے تباہ ہونے والے 13083 کلومیٹر روڈ نیٹ ورک کی تعمیر نو کیلئے 425 ارب روپے یا 1.9 ارب ڈالر درکار ہیں، جبکہ 375 تباہ شدہ پلوں کی تعمیر نو کیلئے 112.5 ارب روپے یا 507 ارب ڈالر درکار ہیں۔
پاکستانی تعمیر کنندگان اور ڈویلپرز کو امید ہے کہ ملک دو سالوں میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے ایک بڑے حصے کی مرمت اور تعمیر نو کے قابل ہو جائے گا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز آف پاکستان کے چیئرمین حنیف میمن کے مطابق ہاؤسنگ سیکٹر کی تعمیر نو کی سرگرمیوں میں کم از کم دو سال لگیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے تنظیم جنوبی صوبہ سندھ میں سیلاب متاثرین کو کم سے کم شرح پر بنیادی پناہ گاہ فراہم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ منقولہ اور غیر منقولہ شیلٹرہاؤسز شروع کئے جائیں گے، ہر یونٹ کی لاگت کا تخمینہ 30 سے 85 ہزار کے درمیان ہو گا۔
دوسری طرف تعمیراتی ماہرین کو خدشہ ہے کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی کے بعد تعمیراتی سامان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ مالیاتی فائدے کیلئے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی ہیرا پھیری کا سلسلہ جاری ہے۔
جنوبی ایشیائی ملک کو نقصانات سے نکلنے کیلئے دنیا کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی امداد کی ضرورت ہے، جس کا تخمینہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اور پاکستانی حکام نے 30 ارب ڈالر لگایا ہے۔
تاہم ماہرین اقتصادیات کو شک ہے کہ پاکستان اپنی امداد اور بحالی کی کوششوں کیلئے بھاری مالی معاونت حاصل کر سکے گا۔ ماہر اقتصادیات یوسف نظر کو امید نہیں ہے کہ امداد کی رقم دو ارب ڈالر تک بھی پہنچ پائے گی۔
انکا کہنا تھا کہ ’مجھے خدشہ ہے اگر پاکستان کو قرضوں میں ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو ہم حتمی طو ر پر ڈیفالٹ کی طرف جا سکتے ہیں۔‘
مالی سال 2021ء کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی تعمیراتی صنعت ملک کی مجموعی معیشت میں تقریباً 14.2 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے اسٹیک ہالڈرز کو امید ہے کہ تعمیر نو کی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد حصہ بڑھے گا۔