لاہور (جدوجہد رپورٹ) فنانشل ٹرانسپیرنسی کولیشن (ایف ٹی سی) اور شراکت داروں کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 21 ترقی پذیر ملکوں میں 38 فیصد کورونا بحالی فنڈز سماجی تحفظ، چھوٹے کاروباروں اور غیر رسمی کارکنوں کی بجائے بڑی کارپوریشنوں کو دیئے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2020ء کے مقابلے میں گزشتہ سال ایک تہائی کم رقم خرچ کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ اگلے سال تک دنیا کی 85 فیصد سے زیادہ آبادی کفایت شعاری کے سخت اقدامات کی گرفت میں رہے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق مجموعی طور پر اس سال صرف کورونا وبا اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے زندگی کی لاگت کے بحران کی وجہ سے 75 سے 95 ملین کے درمیان افراد کو انتہائی غربت میں دھکیلے جانے کی توقع ہے۔
ایف ٹی سی کے ڈائریکٹر میٹی کوہونن نے کہا کہ ’ترقی پذیر ملکوں کی حکومتیں، اکثر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے ہاتھ باندھے بڑی کارپوریشنوں کو عام لوگوں سے آگے رکھتی ہیں۔ کورونا بحالی فنڈز کا تقریباً 40 فیصد بڑی کمپنیوں کو دیا گیا، جس میں قرضوں اور ٹیکسوں میں کٹوتیاں شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وبائی امراض سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے، خاص طور پر خواتین اور غیر رسمی کارکنان کو سماجی تحفظ کی ناکافی کوریج کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین، جو خاص طور پر اس بحران سے متاثر ہوئیں، انہیں مردوں کے مقابلے میں صرف نصف مدد ملی، جس سے صنفی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران غیر رسمی کارکنوں کو بنگلہ دیش اور ملاوی جیسے کئی ملکوں میں افرادی قوت کی اکثریت کی نمائندگی کرنے کے باوجود مجموعی طور پر صرف 4 فیصد فنڈز ملے۔
قرضوں کے بحران کا شکار زیمبیا نے سماجی تحفظ کیلئے فنڈز کا 5 فیصد سے بھی کم مختص کیا، جبکہ تقریباً 90 فیصد بڑے کاروباروں کی حمایت میں خرچ کیا۔ معاشی تباہی کا شکار سری لنکا نے بھی کورونا بحالی کیلئے موصول ہونے والے فنڈز کا زیادہ تر کارپوریٹس کو ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی صورت میں نوازنے پر خرچ کیا۔
رپورٹ میں جن 21 ملکوں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے صرف 8 ملکوں برازیل، چلی، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، لبنان، انڈیا، ملاوی اور گھانا نے سماجی تحفظ پر نصف سے زیادہ فنڈز خرچ کئے۔ تاہم اس فہرست میں سرفہرست کچھ ملک جیسے لبنان اور ملاوی نے بحالی کے اقدامات میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر یا اس سے بھی کم خرچ کیا، جو دوسرے ملکوں کی اوسط سے نصف سے بھی کم ہے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے کٹوتیوں اور کفایت شعاری کے اقدامات متعارف کروانے اور قرضوں کی تنظیم نو کے بدلے بنیادی عوامی خدمات کیلئے فنڈنگ میں کٹوتیوں سے مزید حالات خراب ہو رہے ہیں۔ زیمبیا میں آئی ایم ایف قرض پروگرام کے تحت عوامی اخراجات میں کٹوتیوں اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسوں میں اضافے سے غریب عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
میٹی کوہونن کا کہنا ہے کہ ’رواں سال تقریباً 100 ملین افراد کے انتہائی غربت میں دھکیلے جانے کی توقع ہے اور حالات مزید خراب ہونگے۔ گھانا اور برازیل جیسے بہت سے ملک، جنہوں نے سماجی تحفظ کیلئے اہم فنڈز مختص کئے ہیں، اب اپنے سماجی پیکیجز کو تیزی سے کم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس دوران بہت سے دوسرے ملک صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور سماجی تحفظ میں کٹوتیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، کیونکہ کم اقتصادی ترقی کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی طرف سے قرض دینے کے سخت معیار کے پیش نظر ان کے پاس زرمبادلہ ختم ہو گیا ہے۔‘
انکا مزید کہنا تھا کہ ’اگلے ماہ کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں میں ناکام کفایت شعاری کے اقدامات کی بجائے بڑے کارپوریٹس کے منافعوں اور آبادی کے ایک فیصد کی دولت پر ترقی پسند ٹیکس پالیسیوں کے ساتھ عوام دوست ریکوری کو فروغ دینا چاہیے، ورنہ زیمبیا کی طرح مزید ملک معاشی طور پر تباہ ہو سکتے ہیں۔ بڑی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے والا سری لنکا اب قرضوں کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔‘
ایف ٹی سی نے تمام ملکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کفایت شعاری کی بجائے عوامی مرکز کی بحالی کیلئے متبادل پالیسیوں پر عملدرآمد کریں۔ متبادل پالیسیوں میں فنڈ فال کارپوریٹ منافع پر ٹیکس لگانا، آمدنی اور دولت کے ٹیکس کی ترقی پسند سطحوں کو متعارف کروانا، تمام شعبوں کیلئے عوام کیلئے فائدہ مند ملکیت کی رجسٹریوں کو نافذ کر کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کو ختم کرنا، سماجی تحفظ کے تعاون اور کوریج میں اضافہ اور منی لانڈرنگ اور ٹیکس کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کیلئے اقدامات شامل ہیں۔