خبریں/تبصرے

’سیلاب زدہ پاکستان نے امسال 18 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اتارنا ہے‘

لاہور (نامہ نگار) گذشتہ روزپاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کے تعاون سے ’قرضوں کی منسوخی‘کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا۔

سیمینار کا انعقاد ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور جی 20 وزرائے خزانہ کے جاری سالانہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا ہے جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی زیادہ تر پالیسیوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

سیمینار میں طلبہ، سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مقررین میں مہم برائے منسوخی نا جا ئزقرضہ جات (CATDM) کے کوآرڈی نیٹر خالق شاہ، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق اور تعمیر نو ویمن ورکرز ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن رفعت مقصود شامل تھیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خالق شاہ نے کہا کہ ’اس سال سیلاب زدہ پاکستان کو غیر ملکی قرض کی صورت میں 18 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ یہ اعداد و شمار اگلے سال 23 بلین ڈالر تک پہنچ جا ئیں گے جبکہ حکومت کی آمدنی کا 40 فیصد سے 50 فیصد ان قرضوں کی ادائیگی میں سرف ہو جاتا ہے۔ سیلاب کے بدترین بحران کے دوران قرضوں کی ادائیگی نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ واضح طور پر مجرمانہ عمل ہے۔ پاکستان اور عالمی جنوب کے دیگر ممالک کو اس غیر قانونی قرضوں کے جال سے نکلنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا: ’کفایت شعاری کے نام پر غریب ممالک کوعالمی مالیاتی اداروں کی شرائط اور نیو لبرل ذہنیت نے عدم مساوات اور مزید قرضوں کے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان حالات میں کفایت شعاری جیسے پرانے نسخوں کا سب سے زیادہ اثر انتہائی کمزور اور پسماندہ شعبوں پر پڑ رہا ہے۔ کرونا بحران کے دوران آئی ایم ایف اور 85 حکومتوں کے درمیان طے پانے والے 107 قرض کے منصوبوں میں سے 85 فیصد ایسے کفایت شعاری منصوبے طے پائے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اس بحران کے ختم ہونے کے بعد ان پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ذمہ تمام تر ناجا ئزقرضہ جات فوری ختم کئے جائیں اور امیر ممالک جو ماحو لیا تی تباہی کے ذمہ دار ہیں وہ فوری معاوضہ ادا کریں۔

ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کی کوآرڈینیٹر لیڈی نکپل نے منیلا میں اسی مسئلے پر ہونے والے احتجاج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’دنیا بھر میں لاکھوں افراد صحت عامہ، معاشی کساد اور موسمیاتی تبدیلی کے متعدد بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کا مطلب ان کی شرح سود میں اضافہ بھی ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں صحت، تعلیم، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزوں کے بجٹ میں کٹوتی ہوتی ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے شرح سود آسمان کو چھوتے ہوئے لاکھوں افراد کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے۔ اس قدر بھاری قرضے حکومتوں کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے سے روک رہے ہیں‘۔

ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کی کال پر 56 ممالک کی 200 سے زائد تنظیمیں قرضوں کی منسوخی کا مطالبہ کر رہی ہیں، کیونکہ عالمی صحت، خوراک، توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے بحران پہلے سے ہی خطرناک ہنگامی صورتحال کو بڑھا رہے ہیں۔ قرضہ جات کی منسوخی اورمعاشی انصاف کے حصول کے لئے عالمی سطح پر منائے جانے والے ہفتہ نے جی 20، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ہفتے اپنے اجلاس کے دوران غیر مستحکم اور غیر قانونی قرضوں کی فوری منسوخی کے بڑھتے ہوئے مطالبے پر عمل کریں۔

کمپئین کے مطالبات میں بین الاقوامی اداروں، حکومتوں اور نجی قرض دہندگان کی طرف سے فوری طور پر قرضوں کی منسوخی شامل ہے۔ قرض کی منسوخی کے لئے قرض دہندگان کے لئے مضبوط قانون سازی، مالی اور معاشی نظام میں تبدیلیاں از حد ضروریہ ہیں جو غیر مستحکم اور غیر قانونی قرضوں کے مجموعے سے روکتی ہیں اور قرض کے بحران کا منصفانہ اور جامع حل پیش کرتی ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts