لاہور (جدوجہد رپورٹ) سابق صدر لوئیزاناسیولولا ڈی سلوا نے برازیل کے صدارتی انتخابات میں فار رائٹ کے موجودہ صدر جیئر بولسنارو کو شکست دے دی۔ وہ تیسری مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں لولا ڈی سلوا فتح کے باوجود رن آف سے بچنے کیلئے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ تاہم دوسرے مرحلہ میں لولا ڈی سلوا کو 50.9 فیصد ووٹ ملے، جبکہ موجودہ صدر جیئر بولسنارو 49.1 فیصد ووٹ ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
فار رائٹ کی نمائندگی کرنے والے موجودہ صدر جیئر بولسنارو نے انتخابات میں فتح کو یقینی بنانے کیلئے دھاندلی، دھونس اور جبر کے تمام تر حربے اپنانے کی کوشش کی، تاہم وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
پروگریسیو انٹرنیشنل نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’برازیل کی انتخابی عدالت چیف نے وسیع پیمانے پر رائے دہندگان کو دبانے کی خبروں کو نظر انداز کیا۔ وفاقی ہائی وے پولیس کے بولسنارو کے حمایتی ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے ڈیزائن کئے گئے اس منصوبہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے 560 ناکہ بندیاں کی گئیں تاکہ رائے دہندگان کو ووٹ دینے سے روکا جا سکے۔‘
’بی بی سی‘ کے مطابق یہ ایک ایسے سیاستدان کی شاندار واپسی ہے، جو 2018ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے، کیونکہ وہ جیل میں تھے اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی عائد تھی۔ تاہم 580 دن جیل میں گزارنے کے بعد انکی سزا کالعدم قرار دی گئی اور وہ سیاسی میدان میں واپس آئے۔
اپنی فتح کی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے لولا ڈی سلوا نے کہا کہ ”انہوں نے مجھے زندہ دفن کرنے کی کوشش کی اور میں یہیں ہوں۔“
بولسنارو کی شکست کے باوجود ان کے قریبی قانون سازوں نے کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لولا ڈی سلوا کو قانون ساز ادارے میں اپنی پالیسیوں کیلئے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لولا ڈی سلوا یکم جنوری کو عہدہ سنبھالیں گے۔
قبل ازیں وہ جنوری 2003ء سے دسمبر 2010ء کے دوران برازیل کے صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق لولا ڈی سلوا کی جیت نے لاطینی امریکہ میں ایک نئی ’گلابی لہر‘ کو مضبوط کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالیہ برسوں میں میکسیکو سے ارجنٹائن تک انتخابی کامیابیوں کے بعد بائیں بازو کے رہنما خطے کی تمام بڑی معیشتوں پر حکومت کرینگے۔
لولا ڈی سلوا کی زندگی
’جیکوبن‘ کے مطابق 1945ء میں برازیل کی نسبتاً غریب ریاست پرنامبوکو کے بنجر اور پسماندہ علاقوں میں کسان گھرانے میں پیدا ہونے والے لولا ڈی سلوا چھوٹی عمر میں ہی خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ساؤپالو میں آباد ہوئے۔ نوجوانی میں ہی ایک کوریئر کمپنی میں کام کیا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مشینی تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد ایک میٹل فیکٹری میں کام کیا اور میٹل ورکرز یونین میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ انہووں نے تاریخی ہڑتالوں کی قیادت کی جو 1980ء میں ورکرز پارٹی (پی ٹی) کے قیام پر منتج ہوئیں۔
لولا نے اپنی ابتدائی صنعتی زندگی میں ہی یہ سیکھا کہ جو کچھ بھی مالکان چاہتے ہیں، اس کے ساتھ چلنے سے کوئی بھی شخص بگاڑ سے نہیں بچ سکتا۔ کوئی بھی مالک مزدور طبقے کی آواز کے طور پر کسی مزدور کا احترام نہیں کر سکتا۔
تاہم اپنے بڑے بھائی، جو کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے، کے برعکس ایک نوجوان کے طور پر لولا ڈی سلوا کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں ابتدا میں یونین غیر ذمہ دارانہ اور قدامت پسند ادارہ محسوس ہوتی تھی، جو جنگ کے بعد کی نسل کے مواد کا نشان ہے، جس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں تشدد اور جبر عروج پر تھا۔ اس عرصہ میں لولا ڈی سلوا یونین کو ایک آلے کے طور پر دیکھنے لگے اور اپنے ذاتی عزائم کو پورا کرنے، اوسط درجے کے مزدوروں کے مفادات کا دفاع کرنے کے ایک طریقے کے طور پر، جس نے محنت کش طبقے کیلئے معقول اجرت کی قیمت پر ترقی کی شرح پیدا کی۔
1975ء میں ان کے بڑے بھائی ہوزے فرانسسکو ڈی سلوا، جنہیں فری چیکو کے نام سے جانا جاتا تھا، کو ریاست نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ اس وقت اپنی یونین کے نائب صدر تھے اور خفیہ طور پر کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم بھی تھے۔ اگرچہ لولا کے عروج کے زیادہ تر اکاؤنٹس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس لمحے نے لولا ڈی سلوا کے ذہن پر ریڈیکل نظریات کے اثرات مرتب کئے۔ لولا نے اپنے بھائی کی رہائی کیلئے جدوجہد کی اور بالآخر 76 روز کی حراست کے بعد چیکو کی رہائی کو یقینی بنایا گیا۔ اس عرصہ میں بہت سے لوگ پولیس کے ہاتھوں مارے گئے اور لاپتہ بھی ہوئے۔
لولا ڈی سلوا نے اس کے بعد محنت کش طبقے کی نجات کی جدوجہد کو اپنا لیا اور تقریباً 40 سال قبل سے ہی قومی سطح پر شہرت حاصل کرنا شروع کی۔ 2003ء میں وہ برازیل کے صدر منتخب ہو گئے۔