ٹونی عثمان
ہدایت کار بلال لاشاری کا کہنا ہے کہ ان کی فلم ”دی لیجینڈ آف مولا جٹ“ ہدایت کار یونس ملک کی فلم ”مولا جٹ“ کا ری میک نہیں ہے۔ اگر ”ری میک“ کی تعریف کو بلال لاشاری کی طرح سمجھا جائے تو پھر بھارتی فلم ”لال سنگھ چڈا“ بھی امریکی فلم ”فارسٹ گمپ“ کا ری میک نہیں ہے۔ بہرحال پرانی مولا جٹ اور نئی مولا جٹ میں اتنی مماثلتیں ہیں کہ دونوں کا ذکر ایک ہی مضمون میں کرنا فطری ہے۔
پرانی مولاجٹ ایک ایسی ایکشن میوزیکل فلم تھی جو تکنیکی طور پر ایک ناقص فلم تھی۔ یہ پاکستان کے بدترین مارشل لا کے دور میں 1979ء میں جب ریلیز ہوئی تھی تب ملک میں شدید مایوسی پائی جاتی تھی اور عوام کے پاس تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ ویسے تو فلمی شائقین اس سے پہلے سلطان راہی کو مولا جٹ سے ملتاجلتا کردار ”بشیرا“ اور ”وحشی جٹ“ میں ادا کرتے دیکھ چکے تھے مگر ”مولاجٹ“ کے کردار کو ورکنگ کلاس نے ایک ایسے منصف انسان کے طور پر دیکھا جو غریب اورمظلوم عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لئے کہ وہ پنچائت کے ذریعے بھی انصاف کے لئے آواز بلند کرتا ہے اور ظلم کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاتا ہے۔
”نوری نت“ کا کردار بہت منفرد تھا اور اسے مصطفی قریشی نے بہترین اداکاری سے ناقابل فراموش بنا دیا۔ اس کے علاوہ ایک طاقتور اور اختراعی کردار ”دارو نتنی“ کا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ چاہے ہندوستان کی تقسیم ہو یاسانحہ مشرقی پاکستان، یہ روایت رہی ہے کہ دشمنی نبھانے کے لئے دشمنوں کی عورتوں کی ہر طرح سے تذلیل کی جائے۔ مشرف کے دور میں مختاراں مائی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسی روایت کاتسلسل ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلم میں یہ ایک مثبت پیغام تھا کہ مولا جٹ اپنے دشمن کی بہن دارو نتنی کو اپنی بہن مانتا ہے۔ جنرل ضیا کے مارشل لا کے گھٹے ہوئے ماحول میں رہنے والے ناظرین نے فلم کے کرداروں اور انکی مکالمہ بازی کو بہت پسند کیا۔ فلم میں بہت تشدد تھا مگر ’Rehtoric‘ ہر لڑائی میں اہم عنصر ہونے کے علاوہ چھ نغمے بھی تشدد سے فوکس ہٹانے میں مددگار ثابت ہوئے۔ فلم کے آخر میں سلطان راہی کے ایک معنی خیز ڈائیلاگ سے تشدد کے مناظر کی تلافی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک مثبت پیغام بھی دیا۔ سلطان راہی اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں ”دفن کر دو اس (گنڈا سہ) کو اور اس کی قبر پر لکھ دو انسانیت انتقام نہیں، انصاف چاہتی ہے۔“
اب چلتے ہیں نئی مولاجٹ کی طرف، یہ تفریح کے لوازمات سے بھر پور اور تکنیکی طور پر ایک بہتر فلم ہے۔ فلم کے شروع میں مولاجٹ کے والدین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بابر علی اور ریشم نے والدین کے انتہائی مختصر کردار اچھی طرح نبھائے ہیں۔ مولاجٹ بڑا ہو کر پیسے کمانے کے لئے گلیڈی ایٹر کی طرح مار کٹائی کرتا ہے، یعنی تشدد اس کا ذریعہ معاش ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے مایوسی کا ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگتا ہے جب ”نوری نت“، جو ایک عقوبت خانے میں قید ہے، کی اینٹری ہوتی ہے۔ ایک تو قید خانہ بہت ہی نقلی لگتا ہے، اوپر سے حمزہ علی عباسی کی اداکاری بہت کمزور ہے۔ و ہ نوری نت کم اور مصطفےٰ قریشی کی ایک ناقص فوٹو کاپی زیادہ لگتے ہیں حالانکہ وہ اچھے اداکار ہیں اور ٹی وی کی سکرین پر اس کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ”دارو نتنی“ کے کردار میں حمائمہ ملک اور ”ماکھانت“ کے کردار میں گوہر رشید کی بہت عمدہ اداکاری اور صائمہ بلوچ کا تاثراتی جدید رقص فلم کے فنکارانہ پہلو کو مثبت سمت لے جانے میں مددگار ہیں۔ اس کے علاوہ فارس شفیع اور فواد خان بھی اپنے کرداروں کی درست تشریح کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ہدایت کار بلال لاشاری جو ہالی وڈ کی ”گینگز آف نیو یارک“ اور ”گلیڈی ایٹر“ جیسی فلموں سے متاثر لگتے ہیں ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود پنجاب کی دیہی ثقافت کا ماحول بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجابی زبان سے بھی انصاف نہیں کیا گیا۔ جب ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ایک دوسرے سے مختلف پنجابی بولتے ہیں تو کرداروں میں حقیقی رنگ نہیں رہتا۔ مولا جٹ اور دارو نتنی کے درمیان منہ بولے بھائی بہن کے رشتے کی بجائے ایک یک طرفہ آفیئر دکھایا گیا ہے۔ ایک ایپک فلم، ایک خیالی دنیا تخلیق کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر پھر لاشاری صاحب کو ہمت کر کے ایک نیا سٹوری پلاٹ متعارف کروانا چاہیے تھا اور کہانی کو پنجاب کی بجائے کسی خیالی صوبے میں ڈھالنا چاہیے تھا۔ یہ مایوس کن ہے کہ مولا جٹ کو خاموش طبیعت دکھا کر مکالمہ بازی کی بجائے تشدد کو اہمیت دی گئی اور خونریزی کو تفریح کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں کوئی مثبت پیغام بھی نہیں دیا گیا۔
فلم کی پبلسٹی جس جارحانہ انداز میں کی گئی ہے اس سے مداحوں کا کلچر تو تیار ہوتا ہے مگر فلم ناقدین کا کلچر ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو اچھی فلموں کی اشد ضرورت ہے اور اچھی فلموں کے لئے نہ صرف اچھے فلم میکرز کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ فلم ناقدین کا ہونا بھی صحتمند ہوتا ہے۔