لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں طلبہ تحریک کی علامت سمجھے جانے والے کامریڈ حسن ناصر کا 62 واں یوم شہادت گزشتہ روز 13 نومبر کو منایا گیا۔ حسن ناصر کو ان کی جدوجہد، قربانیوں اور بہادری کیلئے یاد کیا جاتا ہے۔
حسن ناصر 2 اگست 1928ء کو حیدر آباد دکن (برطانوی دور کی ایک شاہی ریاست) میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان قوم پرست سیاست سے وابستگی کیلئے مشہور تھا۔
ابتدائی تعلیم گرامر سکول سے سینئر کیمبرج کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے، جو ان دونوں مسلم اشرافیہ کیلئے سیکھنے کا ایک مشہور مرکز تھا۔ اس عرصہ میں ہندوستان بغاوتوں، ہڑتالوں اور طلبہ تحریکوں سے لرز اٹھا تھا۔ حسن ناصر پہلے سے ہی ایک بہترین مقرر تھے اور وہ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے رہنماؤں کی تحریک کیلئے شروع کی گئی طلبہ تحریک کا حصہ بن گئے۔
1947ء میں حیدر آباد ریاست میں کمیونسٹوں کی زیر قیادت انقلاب کسان بغاوت نے حسن ناصر کو انقلابی نظریات کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے کمیونسٹ تحریک میں شمولیت اختیار کی اور دسمبر 1947ء میں پاکستان چلے گئے۔
کراچی میں بائیں بازو کا پیپلز پبلشنگ ہاؤس ان کا ٹھکانہ بن گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو یونینوں میں مزدوروں کو منظم کرنے کیلئے وقف کر دیا۔ جب انہوں نے آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیادیں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا تو اس وقت انہوں نے خود کو پاکستان میں ایک طالب علم رہنما کے طور پر نہ صرف منوایا بلکہ نوجوانوں میں توجہ حاصل کی۔
1951ء میں انہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، جسے حکومت پاکستان نے ابھرتی ہوئی کمیونسٹ پارٹی کو دبانے کیلئے شروع کیا تھا۔ اس کیس سے حسن ناصر 1952ء میں رہا ہوئے۔
جیل سے رہائی قلیل المدتی ثابت ہوئی اور انہیں 1954ء میں دوبارہ گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ حیدرآباد واپس آئے اور 1956ء میں جلا وطنی کی مدت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر پاکستان واپس آ گئے۔ واپس آ کر وہ کراچی میں نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکرٹری بن گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد انڈر گراؤنڈ کام کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ 1958ء میں فوجی آمریت کے دوران حسن ناصر روپوش ہو گئے اور حکومت نے ان کی گرفتاری کیلئے انعام کا اعلان بھی کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے کسی ایک نے ان سے دھوکہ کیا، جس کی وجہ سے 1960ء میں انہیں گرفتار کر کے لاہور قلعے میں بھیج دیا گیا۔ لاہور قلعے میں انہیں کئی روز تک بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کر دیا گیا۔ حکام نے عجلت میں ان کی لاش کو بھی دفن کر دیا گیا۔
21 نومبر 1960ء کو ہائی کورٹ نے حسن ناصر کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد حکام کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ حسن ناصر نے زیر حراست خودکشی کر لی تھی، ضروری کارروائی پوری کرنے کے بعد خاندان کی اجازت سے ان کی پولیس کی نگرانی میں تدفین کر دی گئی ہے۔ تاہم خود کشی سے لیکر پولیس کی نگرانی میں تدفین تک کوئی بھی دعویٰ پولیس حکام ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ عدالتی حکم پر قبر کشائی کی گئی، تاہم جس لاش کو حسن ناصر کی لاش قرار دیا گیا، اسے حسن ناصر کی والدہ نے ہی پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ حسن ناصر لمبے قد کے شخص تھے، جبکہ ایک پست قامت شخص کی لاش کو حسن ناصر کی لاش قرار دیا جا رہا ہے۔ والدہ نے دیگر کچھ علامات بھی تلاش کرنے کے بعد کہا کہ یہ لاش حسن ناصر کی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا ہے۔
انٹیلی جنس حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ حسن ناصر نے عقوب خانے کی دیوار پر لگی ایک کیل سے شلوار کا ناڑا لٹکا کر اپنے لئے پھندا تیار کیا۔ حالانکہ لاہور قلعے کے عقوب خانوں میں قید رہنے والے کسی قیدی نے عقوبت خانوں کی کوٹھڑیوں میں کسی قسم کی کیل لگانے کی اجازت ہی نہ ہونے پر اس دعوے کو بھی مسترد کیا۔ اس کے علاوہ بھی انٹیلی جنس حکام نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے بے شمار جھوٹے دعوے کئے۔ تاہم حسن ناصر کی موت اور تدفین آج بھی ریاست کے اداروں پر قرض ہے۔
یوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی نجات کی جدوجہد کرنے والا ایک عظیم ہیرو عقوبت خانوں میں ریاستی جبر و تشدد سہتے سہتے ایک گمنام موت مارا گیا۔ تاہم حسن ناصر کی جلائی گئی شمع ابھی بجھی نہیں ہے۔ حسن ناصر کا مشن ادھوراہے، مگر جاری ہے اورحتمی فتح تک جاری رہے گا۔